ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کو گرانے کے لئے امریکہ نے سازش کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو بھی ان کی حکومت ختم کرنے کے حوالے سے کہا ہے۔ عمران خان نے ایک امریکی محکمہ خارجہ کے افسر ڈونلڈ بلوم پر بھی الزام لگایا تھا کہ وہ بھی ان کی حکومت کے خلاف سازش میں مصروف ہیں۔ انہوں نے حزب اختلاف پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری جیسے چوروں نے ارکان اسمبلی کو کروڑں روپے دے کر خرید لیا ہے تا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے پی ٹی آئی کی حکومت گرائی جا سکے۔ عمران خان نے اس جلسے میں امریکہ مخالف اور بیرونی سازش کا ایک مضبوط بیانیہ بنایا جس نے ان کے ووٹرز اور سپورٹرز میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔
انہی دنوں میں ایک انٹرویو کے دوران عمران خان نے بتایا تھا کہ امریکہ نے ہم سے فوجی اڈے مانگے تھے مگر میں نے انہیں صاف انکار کر دیا۔ عمران خان کی جانب سے اس انٹرویو میں امریکی مطالبے کے جواب میں کہے گئے الفاظ ‘Absolutely Not’ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گئے اور ان کے حامی شدید جذباتی دکھائی دیے۔ عمران خان کی حکومت کے جانے کی وجوہات خالصتاً سیاسی اور اقتصادی تھیں مگر وہ اس کو بیرونی سازش کے ساتھ منسلک کرنے اور اپنے حامیوں کے سامنے ایک دفعہ پھر معصوم اور مظلوم بننے میں کامیاب ہو گئے۔ 11 نومبر کو فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے لیکن عمران خان اپنے پچھلے 6 ماہ سے بنائے ہوئے بیانیے سے مُکر گئے اور کہا کہ ان کا امریکہ کے ساتھ جو مسئلہ بھی تھا وہ اب ماضی کا حصہ ہے۔ عمران خان امریکی سازش والے بیانیے سے بھی دستبرار ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک اب وہ معاملہ ختم ہو چکا ہے اور وہ حکومت میں آ کر امریکہ کے ساتھ 'باوقار' تعلقات کے خواہاں ہیں۔
عمران خان نے مزید کہا کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ غلاموں والا سلوک کیا ہے مگر اس میں امریکہ کا قصور نہیں ہے بلکہ پاکستان کی حکومتوں کا اپنا قصور ہے۔ عمران خان نے اپنے فروری 2022 میں کیے گئے دورۂ روس کے بارے میں کہا کہ یہ ایک 'شرم ناک' عمل تھا۔ پہلے ان کا کہنا تھا کہ اسی دورے کی وجہ سے امریکہ نے ان کے خلاف سازش کی تھی۔
روس سے تعلقات استوار کرنے اور ان کے فروری 2022 میں کیے گئے دورے کے بارے میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ان کو روس کا دورہ کرنا ایک شرمناک عمل تھا اور ان کو اس دورے پہ افسوس ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے دورے کے اگلے دن روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا تھا۔ جب عمران خان نے روس کا دورہ کیا تھا تواس وقت انہوں نے اس دورے کو عوام کے سامنے غیر معمولی اہمیت دی تھی اور ان کے حامیوں نے پاکستان اور اس کی خارجہ پالیسی کے لئے اس دورے کو ایک انقلابی اقدام قرار دیا تھا۔ حالانکہ اس وقت پاکستان کے تمام تھنک ٹینکس اور تجزیہ کار اس دورے کی ٹائمنگ پہ سوال اٹھا رہے تھے۔
اب خود عمران خان اس دورے پر پشیمانی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ان کو اس وقت اپنے سیاسی بیانیے کے لئے وہ دورہ اور اس سے وابستہ غیر منطقی فوائد مناسب لگتے تھے اور اب ان کو اس دورے کو شرم ناک قرار دینا ٹھیک اقدام لگتا ہے۔ مگر عمران خان کے اس اقبال میں پاکستان کے اس نقصان پہ کون بات کرے گا جو انہوں نے ایک حساس وقت پہ روس کا دورہ کر کے امریکہ اور یورپی یونین کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں مضحکہ خیز پیغام پہنچایا۔ آج تک عمران خان کے اس دورے کی کوئی وجہ نہیں پتہ چل سکی کیونکہ اس میں نہ تو کوئی معاہدہ ہوا تھا اور نہ ہی کوئی اقتصادی اور تجارتی فائدہ۔ پراپیگنڈے کی انتہا تو یہ ہے کہ اس دورے کو بھی اس وقت کامیاب دکھانے کی کوشش کی گئی تھی اور فرضی تجارتی معاہدوں کے بارے میں تشہیر کر کے قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی گئی تھی مگر روسی حکام نے اس کی تردید کر کے امریکی سازش والے بیانیے کی طرح اس کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا۔ خدا کی پناہ ہے ایسی حماقتوں اور ایسی لغزشوں پر! عمران خان کو کوئی بتانے والا نہیں تھا کہ ملکوں کے سربراہ اتنے اہم ممالک کے دورے کشفی، تخیلاتی اور ذاتی امنگوں پہ نہیں کرتے بلکہ خارجہ امور اور بین الااقوامی تعلقات کے انتہائی نپے تلے پیرامیٹرز کو دیکھ کے کیے جاتے ہیں۔ مگر جو مغرب کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں، وہ کہاں کسی کی سنتے ہیں۔ ایک عظیم فلسفی نے کہا تھا جو سب کچھ جاننے کا دعویٰ کرتا ہے وہ مار کھانے والی جگہ پر مار کھا کر رہتا ہے۔
عمران خان کے ناقدین ان کو 'یوٹرن خان' کے نام سے بھی پکارتے ہیں کیونکہ عمران خان اپنے بہت سارے فیصلوں اور بیانات سے یوٹرن لینے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ مگر ان کی یہ تازہ گفتگو ان کے روایتی یوٹرن سے کافی مختلف دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان کی باتوں سے تو یوں لگ رہا ہے جیسے ان کا سافٹ ویئر مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ اپریل 2022 سے جب سے ان کی حکومت گئی ہے وہ ایک ہی بیانیے پر سیاست کر رہے ہیں اور وہ بیانیہ امریکی مخالفت اور ان کی حکومت کو گرانے والی امریکی سازش پر مبنی ہے۔ اگر عمران خان نے اپنی پالیسی اور بیانیے کو یکسر بدلنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر اس امریکی سازش اور پاکستانی اداروں پہ سنگین الزامات کا کیا ہو گا۔ امریکی سازش تیار کرنے اور ان کی حکومت کو گرانے کے لئے پاکستان ملٹری کی لیڈرشپ نے میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کیا تھا، ان بیانات سے عوام کے سامنے پاکستان کے حساس ادروں کی ساکھ جس طرح متاثر ہوئی ہے اس کا کیا بنے گا؟ پاکستان کی نوجوان نسل کے ذہنوں میں 6 ماہ سے سیاست دانوں اور عسکری اداروں کے خلاف جو زہر بھرا جا چکا ہے اس کا کیا بنے گا؟ پاکستان کے امریکہ جیسے اہم اتحادی ملک کے خلاف مسلسل الزام تراشی کر کے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا کیا بنے گا؟ اپنے حمایتیوں کو ایک خاص بیانیے اور سیاسی سمت پر لگا کر اب عمران خان خود کس سمت میں چل پڑے ہیں؟
آج کل دنیا میں ‘Post Truth-ism’ کی بحث چل رہی ہے جس میں حقائق کو مسخ کرکے اور سچ کو جھوٹ میں بدل کر سیاسی اور دیگر مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس رجحان میں جھوٹ کو اس قدر دہرایا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے لاشعور میں سچ کی طرح اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ اس جھوٹ کو پھیلانے کے لیے آج کل جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ٹولز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میکنزم کا سب سے زیادہ شکار نوجوان نسل ہوتی ہے کیوںکہ آج کل کی نوجوان نسل حالات، واقعات اور خبروں کے سیاق و سباق اور ان کی حقیقت کو پرکھنے کی زحمت نہیں کرتی۔ ہر بیانیے کی ایک مدت ہوتی ہے جس کے بعد وہ متروک ہو جاتا ہے تو اس کے بعد ایک نیا بیانیہ آ جاتا ہے جو کہ نوعیت اور مواد کے حساب سے پہلے بیانیے سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے پاکستان میں عمران خان اس رجحان سے بخوبی واقف ہیں اور اس کے استعمال سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں بھی اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ عمران خان نہایت مطمئن ہو کر جھوٹ بول دیتے ہیں جیسے ان کو اس بات کا علم ہے کہ ان کے حامیوں کے سافٹ ویئر میں یہ جھوٹ سچ میں تبدیل ہو جائے گا۔ اور پھر جب انہوں نے اپنا پہلے والا بیانیہ یکسر بدلنا ہوتا ہے تو پھر انتہائی مطمئن ہو کر نئی بات کر دیتے ہیں اور ان کے حمایتی پہلے سے ہی نئے بیانیے کی کوئی نہ کوئی توجیح ڈھونڈ کر بیٹھے ہوتے ہیں۔
یہ معاملہ سیاسی شعبدہ بازیوں اور پاپولزم کی سیاست کے لیے تو خوب چلتا ہے مگر اس کی وجہ سے کسی قوم کے تعمیری شعور کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ نوجوان نسل تخریب کاری اور فساد کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ عمران خان اپنے قلیل مدتی سیاسی مقاصد کے لئے متازعہ، خطرناک اور اکثر جھوٹ پر مبنی بیانیے لے کر آتے ہیں۔ مختصر سیاسی اہداف حاصل کرنے کے بعد یوں بیان بدلتے ہیں جیسے کوئی گزرا ہوا کل ہو اور ان کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ پچھلے بیانیے سے ملک اور قوم کا کتنا نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ ایک کرکٹر کی سوچ تو ہو سکتی ہے کہ کوئی بھی حکمت عملی اپنا کر ایک میچ تو جیتا جا سکتا ہے مگر پاکستان کی مقبول ترین جماعت ہونے کی دعویدار پارٹی کے مقبول ترین لیڈرہونے کے دعویدار سیاسی رہنما کی حکمت عملی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس رویے سے ایک ملک کو چلایا جا سکتا ہے۔ افسوس کا امر تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ سب کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے مگر کوئی ادارہ، سیاسی جماعت یا افراد اس کو روکنے کی ذمہ داری قبول نہیں کرنا چاہ رہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ان کے پاس اس سلسلے کو روکنے کی تیاری ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ وسائل ہیں جن کے ذریعے سے اس جمود کو توڑا جا سکتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب عمران خان اگر اقتدار میں آتے ہیں تو ان کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی؟ اور یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اب ان کے حمایتیوں کو امریکی غلامی اور حقیقی آزادی والے صیغے کی بجائے 'باوقار امریکی دوستی' کے صیغے کی تسبیح پڑھنا ہو گی؟ عمران خان کی عقل اور سمجھ کے ساتھ الٹی گنگا بہتی ہے جو باتیں ان کو اقتدار کے دور میں کرنی چاہئیں وہ اپوزیشن کے دور میں کرتے ہیں۔ اپنے دور اقتدار میں ان کی کشمیر پالیسی کا گویا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ 2019 میں جب بھارت نے آرٹیکل 370 کے ذریعے سے کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کیا تو عمران خان اور ان کی حکومت کی طرف سے انتہائی مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کیا گیا۔ اسی طرح جب 2019 میں ہی پاکستان کی حکومت نے ملائیشیا میں ہونے والی اسلامی ملکوں کی کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا تو عمران خان صاحب کو جہاز سے اتار کر سعودی ولی عہد نے ملائیشیا جانے سے روک دیا۔ اگر یہ غلامی نہیں تو کیا ہے؟ اپنے دور حکومت میں امریکہ کا دورہ کرنے کے بعد پاکستان واپسی پر عمران خان کا کہنا تھا کہ 'مجھے ملک میں واپس آ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کسی سرکاری دورے سے نہیں بلکہ ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں'۔ کیا ہم جیتے جیتے وہ دن بھی دیکھیں گے جب عمران خان کا کوئی حمایتی یا اس ملک کے ذمہ داروں میں سے کوئی ان سے یہ سوال پوچھے گا کہ عمران خان نے جب خود یہ بیان تھا تو اس وقت وہ غلامی کا کون سا لیول تھا؟