جمہوریت کا سورج اور مارشل لا کا گرہن!

جمہوریت کا سورج اور مارشل لا کا گرہن!
وہ جو کہتے ہیں کہ اب مارشل لا لگانا ممکن نہیں، نہ جانے کس پرستان کے باسی ہیں! ان کے دعوؤں کی دلیل 1971 اور اس کے بعد کے حالات پر مبنی ہے۔ ملک دو ٹکڑے ہو چکا تھا۔ ایک ذلت آمیز شکست نے ہماری فوج کودلبرداشتہ کر دیا تھا۔ ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو سحر انگیز رہنما کے طور پر ابھرے۔ 93 ہزار جنگی قیدی بمع 3600 مربع میل کا علاقہ جو بھارت کے زیر قبضہ آ چکا تھا چھڑا لائے۔ ان کے پاس ایک مثالی منشور تھا (روٹی، کپڑا اور مکان)۔ وہ مقبول ترین عوامی لیڈر تھے۔ انہوں نے کئی سینیئر جرنیلوں کو برخاست کر دیا تھا اور فوج نے خاموشی سے یہ فیصلہ تسلیم کر لیا کیونکہ عوامی قیادت کی بالادستی جرنیل قبول کر چکے تھے۔

اس امر (یعنی اب آئندہ کبھی مارشل لا نہیں لگے گا) کو یقینی بنانے کے لئے بھٹو آئین میں دستور توڑنے کی سزا موت رکھ چکا تھا۔ مزید براں 7 سینیئر جرنیلوں کو نظرانداز کر کے نہ جانے کس کونے کھدرے سے ایک جونیئر جس کا نام ضیاء الحق تھا اور جو بلا کا خوشامدی ٹٹو تھا، کو نکال کر آرمی چیف بنا چکا تھا۔

سوچا یہ تھا کہ یہ چاپلوس تمام عمر 'اپنا بندہ' بن کر تھلے لگا رہے گا۔ تھالی میں سوراخ نہ کرے گا۔ پر اسی نے وشواس گھات کیا۔ مارشل لا لگایا۔ آئین منسوخ کیا۔ پے در پے اس میں ترامیم کر کے اس کا قیمہ بنایا۔ وعدہ پہلے دن سے یہ کیا کہ صرف 90 دنوں میں صاف شفاف چناؤ کرائے گا جنہیں 1977 سے 1985 تک منسوخ کرتا رہا۔ پھر منعقد کروائے مگر غیر جماعتی بنیادوں پر۔ اسلام کے نام پر یہ منافق 11 برس تک مطلق العنان بادشاہ بن کر حکومت کرتا رہا۔ پھر ایک دن اچانک دھوئیں میں غائب ہو گیا۔ ہوائی جہاز کے حادثے میں مرا۔ لوگوں نے کہا 'خس کم جہاں پاک!' قدرت کا انتقام ایسا ہی ہوتا ہے۔

نواز شریف کو 1997 میں بھاری مینڈیٹ ملا جس کے نشے میں اس نے سپریم کورٹ پر حملہ بھی کروا دیا۔ آرمی چیف جہانگیر کرامت کو بھی گھر بھجوا دیا۔ نواز شریف اپنے آپ کو فرعون سمجھنے لگ گیا تھا۔ دو سینیئر جرنیلوں کو نظر انداز کر کے مشرف کو آرمی چیف بھی بنا دیا۔ وہی غلط چال چلی جو بھٹو نے چلی تھی اور مات کھا گیا تھا۔ اس لمحے تک وہ بھٹو سے بھی زیادہ طاقتور وزیر اعظم بن چکا تھا۔ ہر لمحے خوشامدیوں اور درباریوں میں گھرا رہتا تھا۔ کم و بیش ہر صحافی کو خرید چکا تھا۔ بھاڑے کے سیاسی تجزیہ کار اور درباری وزرا و مشیران رات کے علاوہ دن میں بھی اسے اس کی پسندیدہ لوری سنانے لگے: اب کے نہ مارشل لا برسے!

اس لوری میں کچھ عرصے بعد ایک انترے کی بڑھت بھی ہو گئی۔۔۔امیر المومنین۔ بس خناس سما گیا ذہن میں کہ میں ہی امیر المومنین ہوں اور منوانے کے لئے شریعت بل جسے یار لوگوں نے Shariat Bull کا نام دیا، پیش کر دیا۔ چمچوں کی فوج نے امیرالمومنین کو یہ بھی یقین دلا دیا کہ شیر دراصل وہ بکری ہے جو جنگل میں کسی بھی خونخوار جانور کا تیا پانچہ کر سکتی ہے۔ سو 12 اکتوبر 1999 کو چوہے نے بلی کی دم پر پاؤں رکھ دیا۔ پھر کیا تھا۔ بھاری مینڈیٹ دھڑام سے عوامی لیڈر پر گر پڑا۔ مشرف نے نکال باہر کیا۔ لوگوں نے خیر مقدم کیا۔ مٹھائیاں بانٹیں۔ امیرالمومنین کے ساتھی ایک ایک کر کے مشرف کے سامنے سربسجود ہوتے چلے گئے۔ دو تہائی اکثریت والے عوامی لیڈر کے حق میں دو چار کارکن بھی سڑکوں پر نہ آئے!

سیٹا ٹاؤن (Castles in the air) کے باسی یہ سمجھتے ہیں کہ اکتوبر 27 والا تاریخی دنگل (ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس والا) الٹا پڑ گیا ہے۔ اس نے عمران خان اور اعظم سواتی کو مزید شیر کر دیا ہے۔ آرمی بیک فٹ پر چلی گئی ہے۔ اب انقلاب آ چکا ہے۔ کیسے؟ کہ اب فوج کو بھرے بازار میں گالی دی جا سکتی ہے۔ ماضی میں ایسا کرنا تنہائی میں بھی مشکل تھا۔ مجمعوں میں جرنیلوں کے علاوہ ہر خاص و عام کے کردار پر جی بھر کے کیچڑ اچھالا جا سکتا ہے۔ نئی نسل نے میگنا کارٹا کو گھوٹا لگا لیا ہے۔ اب وہ دن لد گئے جب گریڈ 21 کا کلرک 22 کروڑ عوام کے منہ پر مارشل لا کا تھپڑ جڑ دیا کرتا تھا اور عوام مٹھائیاں بانٹتے تھے۔ اب وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ یہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ جنرل باجوہ مکمل طور پر متنازعہ ہو چکے ہیں۔ لہٰذا اب مارشل لا لگانا ممکن نہیں رہا۔

یہ درست ہے کہ 1971 کے بعد فوج بری طرح دل شکستہ تھی۔ بھٹو بہت طاقتور تھا۔ فوج بہت کمزور تھی۔ ضیاء خوشامدی ٹٹو تھا۔ پھر بھی مارشل لا لگا۔ اب تو 2022 ہے۔ فوج کے پاس مثلث والی طاقت ہے۔ مثلث کا کلیہ ہے کہ جتنا مرضی بوجھ ڈالو، یہ نہیں ٹوٹتی کیونکہ اس کی بناوٹ ہی ایسی ہوتی ہے کہ کوئی وزن اسے توڑ نہیں سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ پچھلے 75 برس سے جمہوریت کا سورج اس زمین پر طلوع ہی نہیں ہوا۔ مارشل لا کا عفریت اسے گرہن لگائے ہے کبھی سٹیج پر اور کبھی پردے کے پیچھے۔ موجودہ چیف تو واقعی اس پوزیشن میں نہیں کہ مارشل لا لگا سکے۔ لیکن اس کے جانشین کو کون روک سکتا ہے؟ اس کی وردی پر تو تنازعات کا کوئی داغ نہ ہو گا۔ اس کے پاس تو ایک کلین سلیٹ ہو گی۔ اور جو گند باجوہ نے چھوڑا ہے صاف تو اسے ہی کرنا پڑے گا۔ کیسے کرے گا؟ مارشل لا لگا کر یا بنا اس کے! یہ تو اس کی مرضی! مگر عوام تبدیلی، انقلاب، نیا پاکستان اور آزادی مارچ ٹائپ کی بکواسیات سے بے زار ہو چکے ہیں۔ اگر وہ مارشل لا نافد کرتا ہے (جس کے امکانات بہت زیادہ ہیں) تو پھر سے مٹھائیاں تقسیم ہوں گی۔ حلوائیوں کی چاندی ہونے والی ہے!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔