پاکستان کی کرکٹ میں میچ فکسنگ کے الزامات اور انکشافات کا باقاعدہ آغاز 1994 میں ہوا جب پاکستان کی ٹیم سلیم ملک کی کپتانی میں زمبابوے کے دورے پر گئی۔ اس وقت پاکستان کو ایک ٹیسٹ میچ میں ایک نہایت بری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد راشد لطیف نے سلیم ملک پر میچ فکسنگ کے الزامات لگائے تھے۔ اس کے بعد میچ فکسنگ کا زیادہ شور اس وقت اٹھا جب 95-1994 میں پاکستانی ٹیم سلیم ملک کی کپتانی میں آسٹریلیا کا دورہ کرنے گئی۔ آسڑیلوی کھلاڑی شین وارن، مارک وا اور ٹم مے نے کپتان سلیم ملک پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے میچ فکسنگ کے عوض ان تین آسٹریلوی کھلاڑیوں کو رشوت کی پیش کش کی تھی۔ ان الزامات کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس کا سربراہ جاوید برکی کو بنایا گیا مگر وہ کمیٹی کوئی خاطر خواہ ثبوت سامنے نہ لا سکی اور میچ فکسنگ میں ملوث کرداروں کو بے نقاب کرنے میں ناکام رہی۔ کمیٹی کے سربراہ نے کمیٹی کی ناکامی کا یہ عذر پیش کیا کہ آسٹریلوی کھلاڑیوں نے اپنے بیان حلفی دستخط کے بغیر جمع کروائے تھے۔ اس کمیٹی پر تنقید کرتے ہوئے سابق کپتان راشد لطیف کا کہنا تھا کہ جاوید برکی کا عذر حقیقیت پر مبنی نہیں تھا کیوںکہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کے حلف ناموں پر دستخط موجود تھے۔
اس کے بعد 1996 کے ورلڈ کپ میں بھارتی ٹیم کے خلاف کوارٹر فائنل سے پہلے پاکستانی ٹیم کے کپتان وسیم اکرم میچ سے فٹنس کے مسائل کو وجہ بنا کر باہر ہو گئے۔ ان کی جگہ عامر سہیل کو ٹیم کا کپتان بنایا گیا۔ پاکستان یہ اہم میچ ہار کر ورلڈ کپ سے باہر ہو گیا جس کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر میچ فکسنگ کے الزامات سر اٹھانے لگے۔ پاکستانی ٹیم کے کپتان وسیم اکرم پر جوئے کے سنگین الزامات لگے۔ انڈیا کے ساتھ 1996 کے کوارٹر فائنل میچ میں پاکستانی ٹیم کے کپتان عامر سہیل کا کہنا تھا کہ 1992 کے بعد پاکستان اس لیے کوئی ورلڈ کپ نہیں جیت سکا کیوںکہ ورلڈ کپ سے پہلے وسیم اکرم کو کپتان بنا دیا جاتا ہے۔ اسی میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق فاسٹ باؤلر سرفراز نواز نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ میچ فکس تھا۔ سرفراز نواز نے 1999 کے ورلڈ کپ میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کے مابین کھیلے جانے والے پول میچ کے بارے میں بھی الزام لگایا کہ یہ میچ بھی فکس تھا۔ تاہم عامر سہیل اور سرفراز نواز دونوں ہی اپنے ان الزامات کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔
مسلسل الزام تراشیوں اور بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی جگ ہنسائی کے بعد 1998 میں لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ملک قیوم کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن بنایا گیا تھا کہ پاکستان کی کرکٹ میں ان کالی بھیڑوں کو سامنے لایا جا سکے جو میچ فکسنگ میں ملوث ہیں۔ جسٹس قیوم کمیشن نے میچ فکسنگ کے حساس معاملے کی چھان بین کے لیے کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں اور آفیشلز سمیت تقریباً 33 افراد کو گواہی کے لیے بلایا تھا۔ ان کے علاوہ گواہی کے لیے 4 سپورٹس جرنلسٹس کو بھی بلایا گیا۔ 13 ایسے افراد کو بھی کمیشن نے بلایا جن کا نام کسی نہ کسی طرح میچ فکسنگ کے ساتھ جڑا ہوا تھا یا ان کے نام اخبارات میں چھپے تھے۔ ان کے علاوہ تین آسٹریلوی کھلاڑیوں شین وارن، مارک وا اور ٹم مے سے بھی پوچھ گچھ کی گئی۔
کمیشن میں پیش ہونے والے سب سے پہلے فرد پاکستان کے سابق فاسٹ باؤلر سرفراز نواز تھے جنہوں نے کمیشن کے سامنے انکشاف کیا کہ پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ کا آغاز 80-1979 میں ہوا جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے آصف اقبال کی کپتانی میں انڈیا کا دورہ کیا تھا۔ آصف اقبال کے مطابق وہاں سے میچ فکسنگ شارجہ منتقل ہوئی جہاں پر وسیع پیمانے پر میچ فکسنگ ہونے لگی۔ ان کے خیال میں پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین کھیلا جانے والا 1987 کے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل بھی فکس تھا اور اس میں جاوید میانداد کے ساتھ دو اور کھلاڑی بھی ملوث تھے۔ سرفراز نواز نے الزام لگایا کہ 94-1993 میں سری لنکن ٹیم کے دورہ پاکستان کے دوران لاہور میں کھیلے گئے میچ میں سلیم ملک کو خاص طور پر لاہور بلا کر میچ کو فکس کیا گیا۔ ایک وقت پر 79 کے سکور پر پاکستان کا محض ایک کھلاڑی آؤٹ ہوا تھا اور پھر اچانک 149 رنز پر پوری ٹیم آل آؤٹ ہو گئی۔ ان کے مطابق سلیم ملک کو اس میچ کو فکس کرنے کے لیے 40 لاکھ روپے دیے گئے تھے۔
اس کمیشن کی انویسٹی گیشن میں دلچسپ مرحلہ اس وقت آیا جب کرکٹر راشد لطیف نے کمیشن کو ثبوت کے طور پر کچھ ریکارڈنگز مہیا کیں جن میں قومی ٹیم کے کچھ کھلاڑیوں اور بورڈ آفیشلز کی آپس میں گفتگو ریکارڈ تھی جو میچ فکسنگ میں ایک اہم ثبوت ہو سکتا تھا۔ کمیشن نے ریکارڈنگ کی صحت کو درست مان لیا مگر کمیشن کے مطابق راشد لطیف نے جو ریکارڈنگ کمیشن کو جمع کروائی تھی اس میں دانستہ طور پر ترمیم کی گئی تھی۔ جب ان ترامیم کے بارے میں راشد لطیف سے پوچھا گیا تو اس نے پہلے یہ عذر پیش کیا کہ انہوں نے اس لیے ریکارڈنگ میں ترمیم کی تھی کیونکہ اس میں گالیاں اور غیر اخلاقی گفتگو شامل تھی جب کہ بعد میں انہوں نے کمیشن کو ایک اور عذر دیا کہ یہ ریکارڈنگ کرکٹر باسط علی کے کسی رشتہ دار کے گھر پڑی تھی اس لیے وہ ان ترامیم کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ کمیشن نے راشد لطیف کے عذر کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ریکارڈنگ میں ترمیم کی صرف وہ وجہ نہیں ہے جو راشد لطیف بتا رہے ہیں بلکہ راشد لطیف اپنے دوستوں سعید انور اور باسط علی کو بچا رہے ہیں جو سلیم ملک کے ساتھ ریکارڈنگ والی گفتگو میں شامل تھے مگر راشد لطیف نے سلیم ملک کی گفتگو کو رہنے دیا اور باقی کی ریکارڈنگ کو کاٹ دیا۔ جب کمیشن نے ان سے پوچھا کہ گفتگو میں کس 'دوست' کا ذکر ہو رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ وہ دوست عامر سہیل تھے جبکہ بورڈ کی تحقیق کے مطابق وہ دوست کوئی اور نہیں بلکہ سعید انور تھے۔
راشد لطیف نے کمیشن کو بتایا کہ کرائسٹ چرچ میں کھیلے جانے والے ایک میچ سے پہلے رات کو سلیم ملک ان کے روم میں آئے اور ان کو میچ فکسنگ کے لیے 10 لاکھ روپوں کی آفر کروائی۔ راشد لطیف کا کہنا تھا کہ یہ وہی میچ ہے جس کو موضوع بنا کرعطاء الرحمٰن نے وسیم اکرم پر میچ فکسنگ کے الزامات لگائے تھے اور عدالت میں ایک بیان حلفی بھی جمع کروایا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ 1994 میں کرائسٹ چرچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف ایک میچ ہارنے کے لیے ایک لاکھ روپے دینے کی پیش کش کی گئی تھی۔
جب عطاء الرحمٰن کو کمیشن نے بلایا تو وہ عدالت میں وسیم اکرم کے خلاف جمع کروائے گئے بیان حلفی سے صاف مکر گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے عدالت میں جمع کروایا گیا بیان حلفی صداقت پہ مبنی نہیں تھا۔ جب کمیشن نے پوچھا کہ آپ نے جھوٹا بیان حلفی کیوں عدالت میں جمع کروایا تھا جس کے جواب میں عطاء الرحمٰن نے کہا کہ وہ بیان حلفی ان سے زور زبردستی دلوایا گیا تھا۔ بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ عطاء الرحمٰن اصل میں وسیم اکرم کو بچا رہے تھے۔
ان کے علاوہ کمیشن کے سامنے کافی کھلاڑی اور آفیشلز پیش ہوئے جنہوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی۔ عاقب جاوید اور عامر سہیل نے وسیم اکرم اور سلیم ملک پر جوئے اور میچ فکسنگ کے سنگین الزامات لگائے۔ بعد ازاں عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ وسیم اکرم کے میچ فکسنگ سے انکار پر اور کمیشن کو وسیم اکرم کی میچ فکسنگ کی سرگرمیوں کے بارے میں بتانے پر وسیم اکرم نے ان کا کرکٹ کیریئر تباہ کر دیا حالانکہ ان کی عمر ابھی 25 سال تھی اور وہ مزید کرکٹ کھیل سکتے تھے۔ اس کے علاوہ قومی کرکٹ ٹیم کے باقی کھلاڑیوں جاوید میاںداد، اعجاز احمد، وقار یونس، مشتاق احمد، ثقلین مشتاق اور انضمام الحق پر بھی کمیشن کے روبرو جوئے اور میچ فکسنگ کے سنگین الزامات لگائے گئے۔
رپورٹ کی دریافت کے مطابق سابق کپتان سلیم ملک کو میچ فکسنگ میں ملوث پائے جانے پر ان پر کسی بھی طرح کی کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کر دی گئی۔ اس کے ساتھ کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کہا کہ سلیم ملک کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کی بھی چھان بین کی جائے۔ وسیم اکرم کو کمیشن نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے بے گناہ قرار دے دیا مگر ان کے اوپر مستقبل میں کپتان بننے اور بورڈ میں کسی عہدے پر فائز ہونے کی پابندی لگا دی اور ساتھ میں یہ سفارش کی گئی کہ ان کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے۔ عطاء الرحمٰن کو جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے پر کرکٹ سے تاحیات نا اہل کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ کمیشن نے مندرجہ بالا کھلاڑیوں سمیت دیگر کھلاڑیوں پہ جرمانے کی سفارش کی جن میں سلیم ملک 10 لاکھ، وسیم اکرم 3 لاکھ، مشتاق احمد 3 لاکھ، عطاء الرحمٰن 1 لاکھ، وقار یونس 1 لاکھ، انضمام الحق 1 لاکھ، اکرم رضا 1 لاکھ اورسعید انور جرمانے کی مد میں 1 لاکھ روپے ادا کریں گے۔
ملک قیوم کمیشن کی رپورٹ بھی پاکستان میں بننے والے باقی کمیشنوں کی طرح ذاتی پسند نا پسند اور سیاست کی نظر ہو گئی۔ صحافی علیم عثمان کے مطابق ان کو جسٹس ملک قیوم نے خود بتایا تھا کہ انہوں نے وسیم اکرم کو اس لیے بے گناہ قرار دیا تھا کہ ان کو وسیم اکرم کی باؤلنگ بہت پسند تھی اور راشد لطیف پر انہوں نے اس لیے جرمانہ نہیں کیا تھا کیوںکہ وہ ایک غریب آدمی ہیں اور سات بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔
اس کے بعد 2003 کے ورلڈ کپ کے بعد زیادہ تر سینیئر کھلاڑی ریٹائرڈ ہو گئے۔ قیوم کمیشن کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ کھلاڑی محتاط ہو گئے۔ 2003 سے لے کر 2010 تک میچ فکسنگ کے واقعات میں نسبتاً کمی آئی۔ مگر 2010 میں پاکستانی ٹیم کے کپتان سلمان بٹ، فاسٹ باؤلرز محمد آصف اور محمد عامر کے سپاٹ فکسنگ کے سکینڈلزنے ایک مرتبہ پھر پرانے زخموں کو تازہ کر دیا۔ ان تین کھلاڑیوں کی میچ فکسنگ نے کرکٹ کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ پوری دنیا میں پاکستانی کرکٹ کی ساکھ اور ملکی وقار کو شدید نقصان پہنچا۔ آئی سی سی نے ان تین کھلاڑیوں کے کرکٹ کھیلنے پر تا حیات پابندی عائد کر دی۔
اسی طرح 2017 میں پاکستان سپر لیگ کے دوسرے سیزن کے دوران اسلام آباد یونائیٹڈ کے دو کھلاڑی شرجیل خان اور خالد لطیف سپاٹ فکسنگ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ دونوں کھلاڑیوں پر بھاری جرمانے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کھیلنے پر لمبی پابندیاں بھی لگائی گئیں۔ ان کے کرکٹر ناصر جمشید بھی میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے۔ ان کے بعد کرکٹر عمر اکمل نے کرکٹ میچ پر جوا کرانے والے ایک شخص سے ملاقات کا اعتراف کر لیا جس کی وجہ سے ان کے اوپر تین سال کی پابندی عائد کر دی گئی۔
میچ فکسنگ اور جوئے کی غیر قانونی سرگرمیوں نے پاکستانی کرکٹ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان کارروائیوں میں ملوث پائے جانے پر قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے بین الااقوامی سطح پر پاکستان کی عزت اور ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ افسوس کا امر یہ ہے کہ پاکستان میں باقی جرائم کی طرح میچ فکسنگ کی برائی سے جان بوجھ کر چشم پوشی اختیار کی گئی۔ اگر برائی کو شروع میں دبایا جاتا اور ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جاتی تو میچ فکسنگ کے واقعات اس نہج پر نہ جاتے۔ آج بھی پاکستان میں ہر دوسرے گلی محلے میں میچ پر جوا کرانے والے دکانیں کھول کر بیٹھے ہیں۔ ہر میچ سے پہلے بولیوں اور پیشین گوئیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے جہاں کرکٹ کی روح مسخ ہوتی ہے وہیں پر کرکٹ کے شائقین میں شدید مایوسی بھی پھیلتی ہے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کے مسلسل میچ فکسنگ میں ملوث پائے جانے کی وجہ سے اور پاکستان میں جوئے کے سر عام کاروبار کی وجہ سے لوگوں کا کرکٹ کے کھیل سے دل اٹھتا جا رہا ہے۔ آج کل لوگ یہ کہتے ہوئے نہیں پائے جاتے کہ کون سی ٹیم جیتے گی بلکہ اس پر زیادہ زور ہوتا ہے کہ کس ٹیم کا جوئے میں کیا ریٹ چل رہا ہے۔ حکومت اور پاکستانی کرکٹ پہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کرکٹ سے میچ فکسنگ کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ نچلی سطح پر جواریوں اور بکیوں کے خلاف کارروائی کر کے پاکستانی قوم کے محبوب اور پسندیدہ ترین کھیل کو میچ فکسنگ اور جوئے کی لعنت سے پاک کروایئں۔