منگل کی شام ڈان نیوز کے رپورٹر ریاض الحق نے یہ حیرت انگیز انکشاف کیا ہے کہ کابینہ کی کمیٹی برائے قانون سازی نے آرمی ایکٹ 1952 میں متعدد ترامیم تجویز کی ہیں۔ یہ کابینہ کی ماتحت کمیٹی ہے جہاں سے تجاویز کابینہ اور پھر کابینہ سے پارلیمان میں جاتی ہیں۔
ڈان نیوز پر عادل شاہزیب کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے ریاض الحق نے بتایا کہ یوں تو اس میں متعدد ترامیم تجویز کی گئی ہیں لیکن موجودہ حالات کے پیشِ نظر سب سے دلچسپ ترمیم آرمی چیف کے 'دوبارہ تقرر' یا 'برقرار' رکھنے کے حوالے سے ہے۔
اس ایکٹ کے سیکشن 176-A میں 2020 میں سپریم کورٹ کے حکم پر پاکستان تحریکِ انصاف ترمیم لائی تھی جس کے مطابق آرمی چیف کو توسیع دینے کو 'دوبارہ تقرر' لکھا گیا تھا۔
لیکن مجوزہ ترمیم میں اس لفظ 'reappointment' یعنی دوبارہ تقرر کو 'retention' یعنی 'برقرار' رکھنے سے بدلا جا رہا ہے۔
ریاض الحق کے مطابق قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں لفظ 'retention' کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ کئی دنوں سے ملک بھر میں نئے آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اس حوالے سے بارہا کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف ایسے شخص کو آرمی چیف لگانا چاہتا ہے جو اس کی چوری کو چھپائے جب کہ مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ عمران خان آرمی چیف کے تقرر کو متنازع بنا رہے ہیں تاکہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگوا سکیں۔
https://twitter.com/Riazhaq/status/1592565592162275328
اسی دوران ایسی اطلاعات بھی آتی رہی ہیں کہ جنرل باجوہ کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے باوجود اس امر کے کہ آرمی چیف متعدد مرتبہ توسیع کے امکان کو مسترد کر چکے ہیں اور گذشتہ چند روز سے الوداعی دورے بھی کر رہے ہیں۔
گذشتہ ماہ عمران خان نے کامران خان کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آرمی چیف کے تقرر کو کچھ عرصے کے لئے ملتوی کیا جا سکتا ہے تاکہ ملک میں الیکشن ہو اور نئی حکومت آ کر اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا سکے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کی جانب سے مسلسل اس تجویز سے انکار کیا جاتا رہا ہے اور یہ مؤقف برقرار رکھا گیا ہے کہ آرمی چیف لگانے کا استحقاق وزیر اعظم کا ہے اور نئے الیکشن کب کروائے جائیں گے، یہ فیصلہ بھی صرف اور صرف وزیر اعظم کی صوابدید پر ہے۔