بار بار آنے والے سیلابوں کی وجہ سے پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے تقاضوں کے مطابق رہائشی تعمیر پر غور کرنے پر مجبور ہے

2022 کے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں جب لاکھوں لوگ اپنے گھروں کی تعمیر نو کر رہے ہیں سیلاب سے محفوظ گھروں کے لئے ایک ماہرِ تعمیرات کا اختراعی ماڈل ہماری رہنما ئی کر رہا ہے۔

04:40 PM, 15 Nov, 2023

ڈائیلاگ ارتھ

پچھلے سال اگست میں، جنوب مشرقی پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع میرپور خاص کے ایک گاؤں کیول کوہلی کے سکول ٹیچر رانو نے مٹی سے بنی وہ جھونپڑی دیکھی جہاں وہ رہتا تھا۔ تباہ کن سیلاب میں وہ جھونپڑی بہہ گئی تھی۔

صرف آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر پونو نامی گاؤں تھا جہاں ایک کمرے کے بانس کے مکانات نے سیلاب کے دباؤ کو برداشت کیا تھا اور وہ پوری طرح رہائش کے قابل تھے۔ رانو نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ “اِن لوگوں کے گھر سیلاب میں نہیں گرے اور نہ ہی انہیں نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ انہی گھروں نے پڑوسی دیہات کے لوگوں کو سیلاب میں پناہ فراہم کی، جن میں رانو اور کیول کوہلی کے دیگر لوگ بھی شامل تھے۔

رانو کو دیہاتیوں کے ذریعے پتہ چلا کہ یہ مکانات یاسمین لاری نے ڈیزائن کئے ہیں جو پاکستان کے معروف ترین ماہرِ تعمیرات میں سے ایک ہیں۔اُن کی تنظیم، ہیریٹیج فاؤنڈیشن آف پاکستان کی ایک ٹیم نے وہاں کی کمیونٹی کے لوگوں کو یاسمین لاری کے ڈیزائن کردہ گھر بنانا سکھایا تھا جو سیلاب کے دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اِس سے متاثر ہو کر، رانو اور اس کے گاؤں کے دیگر افراد نے بھی کمپنی سے رابطہ کیا تاکہ وہ اپنی کمیونٹی کے لئے مکانات بنانے کی تربیت حاصل کریں۔

ایک آسان اور پائیدار حل

لاری کا کہنا ہے کہ گھاس سے بنی ایک ترچھی اور مخروطی چھت کے نیچے، گھر کا ڈھانچہ بانس سے بنائے گئے آٹھ پینلز پر مشتمل ہے۔ بانس جو کہ ایک تعمیری مادہ ہے، اِس کا اِنتخاب اِس کی لچک کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ پینلز کو چونے اور کیچڑ (دیہاتوں میں مٹی، پانی اور بھوسے سے بنایا جانے والا تعمیری مادہ جسے گارا بھی کہتے ہیں) سے پلاسٹر کیا گیا ہے۔ اور بانس کے ڈنڈوں کو کراس شکل میں ڈیزائن کیا گیا ہےکیونکہ کراس کی یہ شکل ساخت کو مضبوط کرتی ہے۔ یہ چونے کی اینٹوں سے بنے چبوترے پر نصب کئے جاتے ہیں، جو اسے زمین سے اوپر اٹھاتے ہیں۔ اور گھر کے نیچے کی زمین مسام دار فرش کے ساتھ ہموار ہوتی ہے۔ ایسی سطح جس میں ہوا کے خلاء کی زیادہ مقدار ہوتی ہے جو پانی کو اس سے گزرنے اور مٹی میں گھسنے دیتی ہے۔ رانو نے مشاہدہ کیا کہ مناسب نکاسی کے ساتھ اونچی زمین پر تعمیر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سیلابی پانی کا گھر میں داخل ہونے کا خطرہ بھی کم ہوگا۔

گزشتہ اکتوبر رانو کے گاؤں میں کل پچیس گھر بنائے گئے تھے۔ ہر گھر کو تعمیر کرنے میں صرف دس دن لگے، جس کی لاگت 25 ہزار پاکستانی روپے (نواسی امریکی ڈالر) آئی۔ لاگت کو کم رکھنے کے لئے مقامی طور پر قابل رسائی تعمیری مادّے (گارا) کا استعمال کیا گیا۔ فاؤنڈیشن نے مخصوص تعمیراتی مواد کے لئے رقم کی ادائیگی کی اور تعمیر کے دوران تکنیکی مشورے فراہم کئے۔ جبکہ گھروں میں مقیم افراد کو مقامی طور پر دیگر تعمیری مادے جمع کرنے اور تعمیراتی مزدوری فراہم کرنے کا کام سونپا گیا۔

اب گھر کے ڈیزائن میں وسطی مشرقی صوبہ پنجاب سے حاصل کردہ بانس کا استعمال کیا گیا ہے۔ جبکہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن آف پاکستان مقامی لوگوں کو خود اسے اُگانے کی ترغیب دے رہا ہے۔ فاؤنڈیشن کے پراجیکٹ مینیجر نعیم شاہ کہتے ہیں کہ وہ ایسا اس لئے کررہے ہیں تاکہ مستقبل میں آنے والی آفات کی صورت میں لوگوں کے پاس اپنے مکانات خود سے دوبارہ تعمیر کرنے کا سامان موجود ہو۔

ان گھروں میں رہتے ہوئے رانو کہتے ہیں کہ ” اب ہم خود کو محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ ہم پر چھت کے گرنے کا کوئی خوف نہیں ہے اور ہمیں بارش ہونے پر باہر بیٹھنے کی خواہش محسوس نہیں ہوتی۔”

آفات سے نمٹنے کی صلاحیت

پاکستان میں 2022 کے سیلاب نے پاکستان کے جنوب میں سندھ اور بلوچستان کے صوبوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی تھی۔ 1700 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ تین کروڑ تیس لاکھ افراد متاثر اور اسی لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے۔ تقریباً نو لاکھ گھر منہدم ہو ئے۔

لاری، پاکستان کی پہلی خاتون آرکیٹیکٹ ( ماہرِ تعمیرات) نے 2005 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں زلزلے سے تباہی کے بعد بانس کے گھر ڈیزائن کیے تھے۔ گھر کے ماڈل میں علاقےکی ضروریات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے تبدیلیاں کی گئیں اور اِس پروگرام کو 2011 میں صوبہ سندھ، جنوب مشرقی پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں تک بڑھایا گیا۔ جہاں فاؤنڈیشن نے اپنے ہاؤسنگ پروگرام کے تحت خیرپور اور ٹنڈو الہ یار اضلاع میں کم از کم ایک ہزار مکانات تعمیر کئے جِسے اُنہوں نے “گرین شیلٹرز” کا نام دیا۔ ہیومینیٹیرین آرکیٹیکچر (انسانی فنِ تعمیر) میں اُن کے کام کی وجہ سے لاری کو اس سال رائل انسٹی ٹیوٹ آف برٹش آرکیٹیکٹس کی طرف سے رائل گولڈ میڈل سے نوازا جائےگا۔

لاری کا ہاؤسنگ ماڈل مقامی طور پر پیدا ہونے والے اور آسانی سے دستیاب تعمیری مواد کے ذریعے مقامی لوگوں کو خود اپنے ہاتھوں سے گھر تعمیر کرنے کے ہنر سکھانے کے تصورات پر مبنی ہے۔ اِس سے کمیونٹی کو بیرونی مدد پر بھروسہ کرنے کی بجائے آفات سے بچنے والے گھروں کی تعمیر میں فعال طور پر حصہ لینے اور مقامی لوگوں کے اندر مہارتوں کو برقرار رکھنے اور پھیلانے میں مدد ملتی ہے۔ خود انحصاری کی حوصلہ افزائی کے لئے ہیریٹیج فاؤنڈیشن آف پاکستان مالی امداد کے بجائے مہارت اور تعمیری مواد کی فراہمی پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ لاری کہتی ہیں کہ جس لمحے آپ لوگوں کو امداد دینا شروع کرتے ہیں تو یہ چیز اُن کے شخصی وقار کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ آفات کے متاثرین “بے گھر ہیں، معذور نہیں ہیں۔آپ اُنہیں ہنر سکھائیں اور وہ حیرت انگیز کام سر انجام دینے لگیں گے۔

لیکن مکمل خود کفالت کو یقینی بنانے کے لئے، لاری کا خیال ہے کہ امداد کو گھر سے باہر اور روزمرہ کی ضروریات تک پھیلانا چاہیے۔ لاری کہتی ہیں کہ ’’صرف میرے صوبے میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو پانی سے محروم ہیں۔ لیکن آپ صرف اُنہیں ایک گھر دیتے ہیں۔ اور دوسری چیزوں کا کیا ہوگا؟ وہ کیسے زندہ رہیں گے؟” اس مقصد کے لئے ہیریٹیج فاؤنڈیشن آف پاکستان مقامی لوگوں کو سولر پینلز اور ہینڈ پمپ بھی فراہم کرتا ہے۔ جن دونوں کی ادائیگی فاؤنڈیشن کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اِن ادائیگیوں کے لئے عطیہ دہندگان اور سپانسرز ( فلاحی کاموں کے لئے پیشگی مالی امداد فراہم کرنے والا کوئی فرد یا ادارہ) مالی اعانت فراہم کرتے ہیں۔

فاؤنڈیشن نے گھر کی تعمیر سے متعلق آن لائن تفصیلی ٹیوٹوریل (اسباق) بھی انٹرنیٹ پر دستیاب کئے ہوئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں لاری کے ڈیزائن کو دیگر غیر سرکاری تنظیمیں جیسے مدت بلوچستان نے بھی استعمال کیا ہے۔ یہ پہاڑوں میں گِھرے جنوب مغربی صوبے میں مقامی لوگوں کے زیر قیادت چلائی جانے والی ایک تنظیم ہے۔ جس کا نام اِس علاقے کے نام ہی پر رکھا گیا ہے۔ مدت بلوچستان کی شریک بانی مریم جمالی نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ان کی تنظیم نے سیلاب کے بعد پانچ ماہ میں 250 سے 300 کے درمیان مکانات تعمیر کئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر صوبے کے جنوب مشرقی ضلع جعفر آباد کے گندھاکا علاقے میں ہیں جو سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔

جمالی کہتے ہیں کہ گھروں کی تعمیر سے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ جیسا کہ عام طور پر، مقامی بڑھئی پینل تیار کرتے ہیں۔اور ہنر مند مزدور گھروں کے ڈھانچوں کی مضبوطی اور پائیداری کے حوالے سے مشورے دیتے ہیں اور انہیں گھر کے مالک کے ساتھ ملکر جوڑتے بھی ہیں۔

گھر کے ڈیزائن کو آب و ہوا کے کئی طرح کے دباؤ کے تحت استعداد برقرار رکھنے کی وجہ سے سراہا گیا ہے۔ جمالی بتاتی ہیں کہ ” نہ صرف یہ کہ اِن گھروں کو سیلاب سے نقصان نہیں پہنچتا بلکہ شدید گرمی کے لئے بھی یہ اچھے ہیں۔ ہمارے یہاں 50 سے 52 سینٹی گریڈ تک گرمی پڑتی ہے اور ہمارے اِس علاقے میں ہیٹ ویو (گرمی کی لہر) کے تعدد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔” مٹی کے گھر اِس درجہ حرارت کو برداشت کر سکتے ہیں لیکن وہ سیلاب سے باآسانی تباہ ہو جائیں گے۔ اینٹوں سے بنے گھروں کے اندر درجہ حرارت اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔ کیونکہ کنکریٹ گرمی کو اندر روکے رکھتا ہے۔”

ضلع کے ایک کرایہ دار کسان، تیس سالہ اربیلا نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ” سیلاب کے بعد ہمارے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں تھی۔ ہمارے چھوٹے بچے ستمبر کی تپتی دھوپ میں کھلی ہوا میں بیٹھے تھے۔ کم از کم اب ہمارے بچے محفوظ تو ہیں۔”

ایک اور پچاس سالہ کرایہ دار کسان حکیم نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ” جب سیلاب سے ہمارے گھر تباہ ہو گئےتھے تو ہمارے خاندانوں کو کھلی فضا میں چھوڑ دیا گیا تھا ۔” وہ 2022 کے سیلاب کی شدت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “جب ہم نہر کے کنارے سے واپس آئے تو ہمارے پیروں میں سیلاب کا پانی تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مدت بلوچستان نے یہ گھر تعمیر نہیں کئے تھے۔” ہمیں اُمید ہے کہ اب یہ گھر ہمیں محفوظ رکھیں گے۔

اربیلا اور حکیم دونوں کرایہ دار کسان ہیں۔ یہ دونوں اپنے زمیندار کی زمین پر رہتے ہیں اور کسی بھی وقت بے دخل کئے جا سکتے ہیں۔ وہ جن حالات میں رہتے ہیں اُس حساب سے اِن گھروں کو کھول کر کسی اور جگہ منتقل کرنے اور دوبارہ تعمیر کرنے کی صلاحیت اِس نئے گھر کے ڈیزائن کو عملی بناتی ہے۔ چونکہ انہیں گارے سے زمین پر پلاسٹر کیا جاتا ہے۔ اس لئے اس ڈھانچے کو اکھاڑنے کے لئے صرف بیلچہ سے مٹی کھودنی پڑتی ہے۔ بانس کے پینلز پر لیبل لگا کر انہیں دوسری جگہوں پر دوبارہ جوڑنے کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ مدت بلوچستان  نے دیکھا ہے۔

جمالی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حکومت نے اب تک گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنےکے لیے کوئی کوشش نہیں کی ہے، اور یہ غیر سرکاری تنظیمیں ہی ہیں جو اقدامات کر رہی ہیں۔ تاہم، وہ اس طرف توجہ دلاتی ہیں کہ یہ اقدامات مقامی برادری کی قیادت میں نہیں کئےگئے ہیں اور مزید یہ کہ ” اِن اقدامات میں غیر سرکاری تنظیمیں لوگوں کی مقامی ضروریات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے گھروں کے ڈیزائن اور فیصلے اُن پرمسلط کر دیتی ہیں۔” وہ کہتی ہیں کہ کمیونٹی پر مبنی فیصلہ سازی اور نمائندگی آب و ہوا کی لچک کو یقینی بنانے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ “ہر کمیونٹی کی ضروریات، اقدار اور ثقافتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں لہٰذا بجائے اِس کے کہ یہاں کے رہنے والوں کو ہمیشہ ‘ بلوچستان کے غریب اور کمزور لوگوں’ کے تناظر ہی میں دیکھا جائے۔ ہمیں ہر کمیونٹی کی نمائندگی اور متنوع حل کی ضرورت ہے۔”

یہ ہیریٹج فاونڈیشن آف پاکستان کے معاملے میں ظاہر ہے۔ لاری کے گھر کے ڈیزائن کے تمام سیلاب زدہ علاقوں میں استعمال کی بظاہر صلاحیت کے باوجود، یہ ماڈل سب کے لئے مناسب نہیں ہے جیسا کہ غیر سرکاری تنظیم، بلوچستان یوتھ ایکشن کمیٹی کے معاملے میں دیکھا گیا ہے۔ یہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ آرگنائزیشن ہینڈز پاکستان کے ساتھ سیلاب سے متاثرہ ضلع صحبت پور میں چالیس مکانات اور دس پبلک واش رومز بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اور ابتدائی طور پر بانس کے ماڈل ہاؤسز کے استعمال پر غور کیا تھا۔ لیکن اپنے منصوبے بناتے وقت انہیں ایک بڑے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ہیں کیڑے جو بانس کو، جو گھر کا اہم ساختی مواد ہے، کھاتے ہیں۔ سکندر بزنجو ، بلوچستان یوتھ ایکشن کمیٹی کے شریک بانی، کہتے ہیں، “ہم ہیریٹج فاونڈیشن پاکستان کے بانس کے گھروں کے خیال پر مزید تحقیق کر رہے تھے، لیکن زمینی تحقیق سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اس علاقے میں بانس ایک پائیدار مواد نہیں ہوگا کیونکہ دیمک ایک بڑا مسئلہ ہے،”وہاں وہ لوگ جو مواد استعمال کر رہے ہیں وہ اینٹ ہے جو صحبت پور میں مقامی طور پر تیار کی جاتی ہے۔ بزنجو نے اس بات پر توجہ دلائی کہ “یہ ایسی چیز ہے جو وہاں وافر مقدار میں فراہم کی جاتی ہے اور مقامی لوگ اسے زیادہ پائیدار اور طویل مدتی حل کے طور پر دیکھتے ہیں۔”

پرانی سوچ میں پھنسی حکومت

ایک ایسے وقت میں جب کمیونٹیز کو تعمیر نو کے بڑے کام کا سامنا ہے اور ساتھ ہی موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی آفات کے بڑھتے ہوئے خطرات کی وجہ سے ہندوکش ہمالیہ کے آبی ذخائر بھی تباہ ہورہے ہیں۔ ماہرین اس خطے میں موسمیاتی طور پر لچکدار اور سیلاب سے محفوظ رہنے والے گھروں کے ڈھانچے کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں جہاں دو سو چالیس ملین افراد رہتے ہیں۔

موجودہ ہاؤسنگ سٹاک اور انفراسٹرکچر کی خراب حالت کی وجہ سے یہ خاص طور پر اہم ہے۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے ماہر علی توقیر شیخ بتاتے ہیں کہ “مکانات اور انفراسٹرکچر ایسے علاقوں میں بنائے گئے تھے جن میں نو زوننگ (نو زوننگ کا مطلب ہے کہ آپ ایک گھر کے برابر میں فیکٹری تعمیر کر سکتے ہیں) کے قوانین نہیں تھے اور گھر نشیبی علاقوں اور سیلابی راستوں میں تھے۔ جہاں قوانین موجود تھے۔ انہیں کمزور گورننس کی وجہ سے نظر انداز کر دیا گیا”۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ تعمیراتی معیارات “تمام کمزور اور ناقص تھے وہ نوآبادیاتی دور کی طرح ہی تھےاور ان کو بہتر نہیں کیا گیا تھا جو کہ ان کی کمزوری کی بنیادی وجہ ہے۔” شیخ نے اس بات پر بھی توجہ دلائی کہ بدعنوانی بھی ہاؤس بلڈنگ کے نامناسب معیار کی ذمہ دار ہے جانی نقصان تو اپنی جگہ ہے لیکن ناقص تعمیر شدہ گھروں نے پاکستان کے لیے دور رس معاشی اثرات مرتب کیے ہیں۔ شیخ نے کہا کہ حکومت کے تخمینہ کے مطابق 2022 کے سیلاب سے ہونے والے تیس بلین امریکی ڈالر کے نقصانات میں سے دس بلین امریکی ڈالر نجی نقصانات جن میں مکانات شامل تھے۔ جب کہ تقریباً سات بلین امریکی ڈالر سڑکوں، پلوں، بجلی گھروں، تعلیمی عمارتوں اور ہسپتالوں جیسے تباہ شدہ انفراسٹرکچر سے ہوئے۔ سندھ میں حکومت نے ایک غیر منافع بخش کمپنی “ سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈ ایفیکٹیز” قائم کی ہے، سیمنٹ اور مضبوط کنکریٹ سے بنے “لچکدار” گھر بنانے کے لئے۔ اس نے تعمیر نو کے لیے مختص 727 ملین امریکی ڈالر تقسیم کئے۔ جس میں سے پانچ سو ملین امریکی ڈالر ورلڈ بینک کا قرض تھا۔ فنڈز کا استعمال فائدہ اٹھانے والے اپنے گھر بنانے کے لیے کرتے ہیں جس میں کمپنی کی طرف سے منسلک مستریوں کی رہنمائی شامل ہوتی ہے۔

سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈ ایفیکٹیز کے ڈائریکٹر خالد شیخ نے ستمبر میں دی تھرڈ پول کو بتایا کہ فروری سے “ سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈ ایفیکٹیز نے 2.1 ملین مستفیدین میں سے 1.8 ملین کو کامیابی سے فنڈز تقسیم کیے ہیں۔ سندھ بھر میں مختلف مراحل پر 100,000 گھروں کی تعمیر کا کام جاری ہے۔” آب و ہوا کی لچک کو یقینی بنانے کے لیے، سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈ ایفیکٹیز کی ہدایات میں “منزل کی سطح کو اونچے سیلاب کی سطح سے بلند کرنا یا مستقبل کے خطرات کو کم کرنے کے لیے گیلے اور خشک فلڈ پروفنگ طریقوں کو اپنانا اور چھت کی نکاسی کے مناسب نظام کو یقینی بنانا شامل ہے۔”

لیکن ایک ماحولیاتی ماہر تعمیرات اور غیر سرکاری تنظیم انڈس ارتھ ٹرسٹ کے بانی شاہد سعید خان کو تشویش ہے کہ یہ فلڈ پروفنگ ہدایات کافی نہیں ہیں، اور یہ کہ حکومت مکانات کے بحران کو موسمیاتی تبدیلی کے نظریے سے نہیں دیکھ رہی ہے۔وہ وضاحت کرتے ہیں کہ “چونکہ حکومت رینفورسڈ کنکریٹ کا استعمال کر کے تعمیر کر رہی ہے۔ اس لئے وہ صرف چند ‘شو ہاؤسز’ بنا سکتے ہیں۔ مواد کی قیمت زیادہ ہے اسی لئے سے رہائش کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا کیونکہ دیہی علاقوں کے غریب مضبوط کنکریٹ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘اس کے بجائے وہ تجویز کرتے ہیں کہ، ’’ہمیں لوگوں کو زمین کو بطور مادی ذریعہ استعمال کرتے ہوئے اپنے گھر بنانا سکھانا ہوگا۔‘‘ لاری کا کہنا ہے کہ اِن گھروں کی قیمت تین لاکھ روپے (1,067 امریکی ڈالر) ہے اور یہ کہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن آف پاکستان کے ماڈل کے تحت بنائے گئے گھر بہت سستا حل ہوں گے۔ اُنہوں نے بتایا کہ “ہیریٹیج فاؤنڈیشن آف پاکستان کے ماڈل کے تحت بنائے گئے ایک گھر کے ڈھانچے کی قیمت صرف پچیس ہزار روپے (89 امریکی ڈالر) ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ اسے دس لاکھ گھروں سے بھی ضرب دیں تو بھی یہ ایک بہت بڑی رقم نہیں ہوگی۔” یقینی طور پر ورلڈ بینک نے جو چودہ کھرب روپے (تقریباً 500 ملین ڈالر) دیئے ہیں وہ گھروں کی تعمیر کے لئے تمام ضروری اخراجات کو پورا کریں گے۔

لیکن ہیریٹیج فاؤنڈیشن آف پاکستان کے پراجیکٹ مینیجر شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے ابھی تک ان کے بانس کے گھروں پر فاؤنڈیشن کی باقاعدہ پیشکش کا جواب نہیں دیا ہے۔

لاری کہتی ہیں کہ اُن کے نزدیک حکومت کی حکمت عملی ناقص ہے۔ “کنکریٹ اور سٹیل کا استعمال بہت زیادہ کاربن فٹ پرنٹ کے ساتھ آتا ہے۔ یہ نہ صرف ماحولیات کے لئے انتہائی تباہ کن ہے۔بلکہ لوگوں کی زندگیوں کے لئے بھی انتہائی تباہ کن ہے۔ ” اس کے برعکس جیسا کہ اُن کے صرف مقامی وسائل سے تعمیر کردہ گھر کے ماڈل میں بیان کیا گیا ہے۔ اُن کا نصب العین “صفر کاربن، صفر فضلہ، صفر عطیہ دہندہ اور صفر غربت کی طرف عملی رہنمائی کرتا ہے۔”

مزیدخبریں