خیبر پختونخوا: رواں ہفتے کا احوال (7 اکتوبر تا 13 اکتوبر)

01:36 PM, 15 Oct, 2018

نیا دور

خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ چوری و دیگر مدوں میں 7.5 ارب روپے کھا گیا


مفت کتب فراہمی کیلئے سالانہ ساڑھے 3 ارب روپے وصول کرنے والے بورڈ نے 14 کروڑ 40 لاکھ کا ٹیکس چوری کیا


خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ حکومت سے ٹیکس کے لائسنس پر اربوں روپے کی کتابوں کی چھپائی، بنی گالہ میں نجی سطح پر تعمیراتی پلازوں میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے اور سیونگ اکاؤنٹ کی بجائے کرنٹ اکاؤنٹ میں ساڑھے تین ارب روپے رکھنے کے باعث صوبائی حکومت سے 15 سال میں ساڑھے 7 ارب روپے ہڑپ کر لیے۔ راز افشا ہونے پر بورڈ حکام نے فنانس اور محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا کو مذکورہ رقم پر تین سال تک مفت کتب کی فراہمی اور اس دوران صوبائی حکومت سے فنڈز نہ لینے کی تجویز دے دی۔ صوبائی حکومت ہر سال صوبہ بھر کے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو مفت کتب کی فراہمی کیلئے خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کو تقریباً ساڑھے تین ارب روپے کی خطیر رقم ادا کرتی ہے جس کے تحت 40 فیصد کتابیں ٹیکسٹ بک بورڈ خود جبکہ 60 فیصد کتابیں پرائیویٹ پبلشرز کے ذریعے چھاپتا ہے۔ ان پر حکومت سے 17 فیصد ٹیکس اور 12 فیصد انتظامی کارگردگی کے تحت وصول کرتا ہے۔ 40 فیصد کتب کی چھپائی پر ادارہ 61 فیصد ڈیلر کمیشن اور رائلٹی وصول کرتا ہے۔ یہ طریقہ کار پھچلے 15 سال سے جاری ہے اور اس مد میں بورڈ 15 سال میں 14 کروڑ 40 لاکھ روپے کے ٹیکس چوری کر چکا ہے۔ اس کو ساتھ ساتھ انتظامی کارکردگی پر 8 فیصد بھی وصول کر کے 2 ارب 40 کروڑ روپے لے رہا ہے۔ رائلٹی کی مد میں ایک لاکھ روپے سے کم کتابیں چھاپنے پر 12 فیصد وصول کیا جا سکتا ہے جبکہ 5 لاکھ روپے سے زائد اور کتابوں کی چھپائی پر شرح 12 سے کم ہو کر 3.75 فیصد ہوتی ہے جبکہ بورڈ 2 ارب کی کتابوں کی چھپائی پر پوری 12 فیصد رائلٹی وصو کر کے حکومت یا پھر قومی خرانے کو 2 ارب 46 کروڑ روپے کا ٹیکہ لگا لیتی ہے۔ خلاف قانون ہر سال بوڑد پرائیویٹ پبلشرز سے لائسنس لے کر خود ہی کتابیں چھاپ کر اس پر حکومت سے ٹیکس وصول کرتا ہے۔ مفت کتب اور پرائیویٹ مارکیٹ کے تحت ہرسال 5 ارب روپے کی کتابیں چھپوائی جاتی ہیں۔ اس وقت بورڈ کی جانب سے تین تجاویز آئی ہیں جس میں فنانس اور محکمہ تعلیم  نے اس تجویز پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ آئندہ ساڑھے 7 ارب روپے جو بورڈ کے پاس بلاوجہ پڑے ہیں اس پر آئندہ تین سال تک حکومت کتابوں کی چھپائی کرے۔ سفارشات تیار کر کے اعلیٰ حکام کو جمع کرا دی گئی ہیں۔




سرکاری محکمہ قبائلی اضلاع سے قیمتی معدنیات کی سمگلنگ روکنے میں بےبس


مہمند سے معدنیات سے بھرے ٹرک کو محکمہ اہلکاروں نے قبضے میں لیا، پولیس کی کارروائی میں پس و پیش


انضمام میں ہونے والی تاخیر کے باعث ضم شدہ قبائلی اضلاع سے کروڑوں روپے مالیت کی قیمتی معدنیات کی سمگلنگ کا سلسہ تیز ہوا تاہم محکمہ معدنیات کے پاس مذکورہ ضم شدہ علاقوں میں کارروائی کا اختیار نہ ہونے سے وہاں کا محکمہ عملاً غیر فغال ہو کر رہ گیا ہے جس کے باعث صوبائی وزیر معدنیات نے معاملہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ ذرائع کے مطابق محکمہ ممعدنیات میں شکایات و تجاویز سیل کے قیام کے بعد پہلی شکایت پر کارروائی کے دوران کروڑوں روپے کی قیمتی معدنیات کی سمگلنگ کی کوشش ناکام بناتے ہوئے مال قبضہ میں لے لیا گیا جبکہ اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔






فنڈ قلت، چار سال سے سرکاری ہسپتالوں کو او پی ڈی پرچی فراہم نہ کی جا سکی


حکومتی اقدامات کے برعکس زیادہ تر ڈاکٹر ادویہ ساز کمپنیوں کے تشہیری کاغذوں پر مریضوں کو نسخے تجویز کر رہے ہیں


محکمہ صحت خیبر پختونخوا گذشتہ چار سال سے فنڈز کی قلت کے باعث تمام سرکاری ہسپتالوں کو مریضوں کیلئے او پی ڈی پرچی فراہم نہیں کر سکا جبکہ محکمے نے صوبائی محکمہ خزانہ 294 ملین روپے فنڈز او پی ڈی پرچیوں کیلئے مانگے تاہم کوئی شنوائی نہ ہو سکی۔ او پی ڈی پرچیوں کی عدم فراہمی پر حکومت کے احکامات کے باوجود زیادہ تر ڈاکٹر ادویہ ساز کمپنیوں کے تشہیری کاغذوں پر مریضوں کے نسخے تجویز کر رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت قبل ازیں وفاق کی جانب سے سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈی پر پرچیوں سمیت رجسٹرڈ و دیگر سامان مہیا کیا جاتا تھا تاہم مجوزہ سامان کی فراہمی 2015 کے بعد روک دی گئی جس کی وجہ فنڈز کی کمی بتائی جارہی تھی جبکہ صوبائی محکمہ صحت کے پاس بھی اس ضمن میں فنڈز موجود نہ ہونے سے ضلعی و تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتالوں سمیت دیگر تمام طبی مراکز میں او پی ڈی پرچیاں نایاب ہو گئیں جس سے ڈاکٹروں کو بھی شدید مشکلات درپیش تھیں۔ ذرائع کے مطابق صوبے کے بڑے ضلعی ہیڈکوارٹرز ہسپتالوں میں ماہانہ 23 ملین کے لگ بھگ او پی ڈی ہو رہی ہے لیکن اس کےباوجود متعلقہ محکمہ او پی ڈی پرچیوں سے لاپرواہی اختیار کر رہا ہے۔






نجی ہسپتالوں میں انسانوں کی جانوں سے کھیلا جا رہا ہے، ہائی کورٹ


ایف آئی اے حکام کا کام صرف لوگوں کے اکاؤنٹس چیک کرنا نہیں دیگر کام بھی کرنا ہے، قیصر رشید کے کیس کے دوران ریمارکس


پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس قیصر رشید نے کہا ہے کہ ایف آئی اے صرف لوگوں کے اکاؤنٹس ڈھونڈنے پر توانائی صرف نہ کرے۔ ان کی دوسری ذمہ داریاں بھی بنتی ہے۔ غیر قانونی طریقے سے انسانی اعضا کی پیوندکاری کے خلاف ایف آئی اے نے کیا اقدامات کیے، ہمیں رپورٹ دی جائے جبکہ ہیلتھ کیئر کمیشن بھی ایسے عناصر کیخلاف سخت کارروائی کرے جو انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں اور اس حوالے سے ایک جامع رپورٹ بھی عدالت میں جمع کروائی جائے۔ یہ ریمارکس فاضل بنچ نے کوہاٹ کے رہائشی محمد اللہ کی دائرکردہ رٹ کی سماعت کے دوران دیئے۔ عدالت نے کیس کی سماعت شروع کی تو اس دوران درخواست گزار کے وکیل ملک اجمل خان نے عدالت کو بتایا کہ اس کے مؤکل کا چچا حاجی حبیب جو بیرون ملک سے گردوں کے مرض کی تشخیص کیلئے آیا تھا، خیبر پختونخوا کے مختلف ہسپتالوں میں معائنہ کیا تاہم یہ بات سامنے آئی کہ اس کے گردے مکلمل طور ناکارہ ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں واقع ایک پرائیویٹ ہسپتال کے انچارج نے اس کو گردے کے ٹرانسپلانٹ سے متعلق مشورہ دیا اور یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ اسے کیلئے ڈونر بھی فراہم کر دے گا۔ اس سارے عمل میں چکلالہ کے رہائشی امین شاہ بھی پیش پیش رہے۔ بعد میں ڈاکٹر محمد اشفاق نے فیصل آباد کے رہائشی عرفان سے گردہ نکال کر درخواست گزار کے چچا کو لگانے کیلئے آپریشن کیا۔ تاہم دوران آپریشن اس کے مؤکل کی حالت غیر ہو گئی اور اسے ایمبولینس میں اسلام آباد میں ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں پر ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا. انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تک ایف آئی اے متعلقہ ملزمان کیخلاف کوئی کارروائی نہ کر سکی۔






خواجہ سراؤں کیلئے پہلا طبی مرکز پشاور میں قائم ہوگا، ایڈز کے ٹیسٹ ہونگے


ایچ آئی وی کے بڑھتے کیسز کا نوٹس، ابتدائی طور پر 22 خواجہ سراؤں کے خون کے نمونے حاصل کر لیے گئے


خیبر پختونخوا حکومت نے خواجہ سراؤں میں ایڈز کے بڑھتے ہوئے کیسوں کے پیش نظر صوبائی دارالحکومت میں اپنی نوعیت کا پہلا طبی مرکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایڈز کے باعث پشاور سمیت صوبے بھر میں متعدد خواجہ سرا زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ ذرائع کےمطابق خواجہ سراؤں میں ایڈز اور ایچ آئی وی کی روک تھام اور علاج و معالجے کی غرض سے ایڈز کنٹول پروگرام خیبر پخونخوا  اور یو ایس ایڈ کے تعاون سے ان کے گھر پر ہی مفت علاج کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ یو ایس ایڈ کی کنٹری ڈائریکٹر ماریا ایلین جی فارف نے گذشتہ روز شی میل ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے بھی ملاقات کی اور ایڈز سے دو خراجہ سراؤں کے جاں بحق ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے پشاور میں ایچ آئی وی اور ایڈز کی روک تھام اور مفت علاج کی پیشکش بھی کی اور پشاور میں ٹرانس جینڈر ٹریٹمنٹ سنٹر کے قیام کو حتمی شکل دینے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق خواجہ سراؤں کے لئے کٹس مہیا کر دی گئی ہیں اور پہلے مرحلے میں رجسٹرڈ 29 خواجہ سراؤں کے خون کی سکریننگ ہوگی۔

مزیدخبریں