ہمیں ایک ساتھ مل کر آگے بڑھنا ہو گا اور حالات کے تقاضوں کے عین مطابق ایک حقیقی قیادت کو سامنے لانا ہوگا جو ہماری نسلوں کو آگ و خون کی ندیوں سے کوسوں دور محفوظ پناہ گاہیں مہیا کر سکے۔ ہم بے چین ہیں، ہم جذباتی طور پر مجروح قوم، ذلت کے پیندے میں گھلنے سڑنے پر مجبور ہیں۔ کبھی ہم آزادی کے نام پر پیسوں کے عوض بٹورے گئے اور بعد از خرابی بسیار ہمیں محبت و آشتی کے درس دیے گئے۔
ہمیں 90 کی دہائی میں پڑھایا گیا کہ آزادی تلوار کی یلغار سے ممکن ہے۔ پھر ہماری نسلوں نے اس کے نتائج بھی بھگتے۔ ہم امن پسند ہوئے تو ایسے ہوئے کہ گذشتہ 19 سال سے ہمیں مقبوضہ کشمیر کے محکوموں کی یاد تک نہ آئی۔
میں نہایت ادب کے ساتھ حکومت سے ملتمس ہوں کہ نوجوانوں کو آزادی کے نام پر کسی بھی حواس باختہ، جبر کی مقلد قیادت کے حوالے نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ چاہے وہ آزادی پسند مذہبی قیادت ہو یا سیکولر جماعت۔ ہم کسی بھی نابلد قیادت کو کیسے کسی معاشرے کی ترجمانی کا حق دے سکتے ہیں جنہیں خود سیاسی تربیت کی ضرورت ہو۔
افسوس صد افسوس! جنہوں نے ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا وہ خود ایک قلیل گروہ کے ہاتھوں یرغمال بن گئے ہیں۔
میں نے اس دھرنے میں دو طرح کے لوگ دیکھے۔ ایک جو جذبات کی لہروں میں بہے جا رہے ہیں اور انھیں یہ تک علم نہیں کہ جس قیادت کے زیر اثر ہم جان ہتھیلی پر رکھ کر اُس پار خون کی ندیوں میں ڈبکیاں لگانے جارہے ہیں۔ ان کے نظریات اور ہمارے جذباتی لگاؤ میں اس قدر طویل فاصلے حائل ہیں کہ انہیں چشم زدن میں طے کرنا ممکن نہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو شاید علم نہیں کہ سیز فائر لائن کے اس پار ایک وحشی عسکری قوت ہے۔ جو مکمل طور پر جدید اسلحہ سے لیس ہے، اس درندہ صفت فوج نے لاکھوں کو موت کی نیند سلا دیا ہے۔ شاید اس وقت ہمارا پار جانا مسئلہ کشمیر کو کوئی فائدہ نہ دے سکے، ہاں مگر شہیدوں اور جنگی قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس سے پہلے مقبول بٹ شہید سمیت بہتیرے یہ کوشش کر چکے ہیں اور نتائج انتہائی خوفناک برآمد ہوئے۔
دوسری طرف چند بردہ فروش بھی مفت کی کھیر کھانے نکلے ہیں۔ کہنے کو انھوں نے ریاست کی سیاست اور تقلید کی مثلث کو ہی اپنی زندگیوں کا محور بنایا ہے، ریاست سے مراعات لیتے رہے۔ حکومتی عہدوں اور پاکستان نواز سیاست اور سیاسی جماعتوں کے عہدوں پر جہاد عظیم کرتے رہے۔ وہ بھی اس غیر سنجیدہ، نامعقول اور جذبات میں بپھری ایک مقامی سیاسی قوت کو سراہنے جسکول پہنچ جاتے ہیں۔ جن کا بنیادی مقصد محض اپنی سیاست کو ہی چمکانا ہے یا پھر انتشار بھری شرارت کرنا ہے۔
ہم خود ظالم ہیں۔ نہ ہی کسی ملکی قوت کو ہم پر یقین ہے اور نہ ہی ہمارے بیرونی آقاؤں کو ہم سے کوئی ضروری مطلب۔ میں یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ سوشل میڈیا پر جموں کشمیر ٹی وی نامی ایک مقامی لبریشن فرنٹ کے پیج کو ہمارے حالات و مفادات سے زیادہ بین الاقوامی مسائل کی فکر ہے۔ اس پیج نے گذشتہ رات کُرد باغیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کا رویہ سراسر ظالمانہ ہے۔ شاید ان بہروں کو علم نہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آپ کی نام نہاد انسانیت دوست قوتوں کے شدید مخالف ترکی اور پاکستان نے ہی ہم پر ہو رہے ظلم پر آواز بلند کی۔ نہ ہی انکل سام ہماری مدد کو وارد ہوئے اور نہ ہی ان عربوں کی زنبیلوں سے ہمارے لیے کوئی معجزہ برآمد ہوا۔ ایسی قیادت کے ہوتے ہوئے ہمیں دشمنوں کی ضرورت نہیں۔
وزیراعظم آزاد کشمیر کی قیادت بھی لاجواب ہے۔ وہ ایک لمحہ تک الحاق کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو دوسرے ہی لمحہ وہ خود ہی جنگ کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ ہم اس نہج پر پہنچ گے ہیں جہاں پاکستان کے عوام بھی ہمارے کردار میں شکوک و شبہات محسوس کر رہے ہیں اور کیوں نہ کرے۔ جب ریاست کے امیر اور سیاست کے فرماں روا ہی اپنی قوم کے بیانیے کے برعکس اپنا منجھن بیچنا چاہتے ہیں۔ تو پھر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہماری صدیوں کی محنت کا حاصل فقط غلامی ہی رہے گی۔
میرا خیال ہے وفاقی حکومت کو کشمیری عوام سے براہ راست معاملات طے کرنے چاہیں جبکہ نام نہاد ہی سہی مگر منتخب حکومت کی خواہشات سننے کے بجائے ان کو ذمہ داریاں تفویض کی جانی چاہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ریاست کسی کو سیز فائر لائن توڑنے کی اجازت دے۔ یا پھر کوئی بھی گروہ بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کی حماقت کرے، تو اس کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔
یہاں یہ کہنا قابل ذکر ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو تنہا چھوڑا نہیں جا سکتا اور کوئی بھی جنگ ہم حکومت پاکستان کے ایما کے بغیر لڑ نہیں سکتے۔ لہذا ہمیں ہر حال میں امن کی کوشش کرنا ہوگی اور جہاں تک جنگ کا سوال ہے تو اس کے لیے بھی گھوڑے تیار رکھنے ہوں گے۔