فارن فنڈنگ کیس کے حقائق کو مسخ کر کے حقیقت تبدیل نہیں کی جا سکتی

05:46 PM, 15 Oct, 2019

عماد ظفر
پاکستان تحریک انصاف کے بیرونی فنڈنگ (فارن فنڈنگ) کیس پر مجھے اچھی طرح سے تحقیق کرنے اور انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں اس مقدمے پر تفصیل سے لکھنے کا موقع ملا۔ خوش قسمتی سے راقم خود ایک دور میں ایک بین الاقوامی این جی او کے توسط سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کیپیسٹی بلڈنگ اور قوانین سازی کے مرحلے میں شریک رہا اور اس نسبت سے الیکشن کمیشن کے دائیرہ کار کو سمجھنے کا معمولی سا فہم رکھتا ہے۔ اکبر ایس بابر سے شناسائی ایک دوست کے ذریعے ہوئی اور ان سے تفصیلی طور پر ان کا مؤقف جاننے کا موقع بھی ملا۔ حال ہی میں نیا دور پر پاکستان تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کے بارے میں ایک مضمون نظر سے گزرا۔ آزادی اظہار کے اس دور میں ہر شخص اپنی رائے رکھنے میں آزاد ہوتا ہے لیکن حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنا کسی بھی صورت آزادی رائے کے زمرے میں نہیں آتا۔



یہاں پڑھیے: گونگے کی رمز گونگے کی ماں ہی جانے







مضمون کے مصنف نے پہلا اعتراض یہ اٹھایا کہ اکبر بابر 2014 سے 2018 کے درمیان کہاں غائب تھے اور اس مقدمے کی پیروی کیوں نہیں کر رہے تھے۔ اگر مصنف الیکشن کمیشن اور عدالتی ریکارڈ کی ذرا سی بھی چھان بین کرنے کا کشٹ اٹھاتے تو انہیں اس فارن فنڈنگ کیس کے حقائق کی نوعیت کا علم ہو جاتا۔

اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کے خلاف مقدمے کی درخواست 14 نومبر 2014 کو پیش کی۔ جس میں انہوں نے عمران خان اور دیگر رہنماؤں پر تحریک انصاف کے فنڈز میں خورد برد اور غیر قانونی بیرونی فنڈنگ کا الزام عائد کیا۔ 18 نومبر 2014 کو اکبر ایس بابر کو تحریک انصاف کے نمائندوں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی اور انہیں یہ مقدمہ واپس لینے کا کہا گیا۔ 21 نومبر 2014 کو اکبر ایس بابر نے وزارت داخلہ کو اس ضمن میں ایک خط تحریر کیا اور اپنی حفاظت کے لئے سکیورٹی کی درخواست کی۔ یکم اپریل 2015 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک آبزرویشن دی کہ تحریک انصاف کی جانب سے جماعت کے مالیاتی گوشواروں کی جمع کروانے والی فہرستیں قانون کے مطابق نہیں ہیں کیونکہ ان میں جماعت کو ملنے والے فنڈز کے ذرائع کا ذکر موجود نہیں۔

تحریک انصاف نے اس پر الیکشن کمیشن کے جماعتوں کے فنڈز کی چھان بین کرنے کی صوابدید پر سوالات اٹھا دیے اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ اس اعتراض کو لے کر الیکشن کمیشن نے سماعت کی اور 8 اکتوبر 2015 کو تحریک انصاف کے جماعت کی فنڈز کی چھان بین کے بارے میں اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ الیکشن کمیشن فنڈز کی چھان بین کا اختیار رکھتا ہے۔

اس کے بعد 26 نومبر 2015 کو تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے دائرہ کار اور اکبر ایس بابر کے بطور مدعی بننے پر اعتراضات کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروا دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کے تاخیری حربوں کے باعث یہ مقدمہ تقریباً ڈیڑھ سال چلا اور 17 فروری 2017 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے الیکشن کمیشن کے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت کے اختیار کو چیلنج کرنے والی درخواست مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اس مقدمے کی سنوائی کا مجاز قرار دیا اور ساتھ میں ہی اکبر ایس بابر کو تحریک انصاف کا رکن قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف تحریک انصاف کی متاثرہ فریق نہ ہونے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ اور یوں 2017 میں الیکشن کمیشن نے دوبارہ سے اس مقدمے کی سنوائی کا آغاز کر دیا۔



نومبر 2014 سے لے کر آج تک تحریک انصاف نے اسلام آباد میں پانچ مرتبہ الیکشن کمیشن کے بارے میں تحفظات اور اکبر ایس بابر کی جماعت کی رکنیت کی منسوخی کے حوالے سے پانچ متفرق درخواستیں جمع کروائیں۔ ایک درخواست میں اس مقدمہ کی سماعت کو ان کیمرہ یعنی خفیہ رکھنے کی درخواست کی گئی۔ دوسری درخواست میں عمران خان نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ کسی بھی عام پاکستانی کی درخواست پر اپنی جماعت کے گوشواووں کی پڑتال کروانے کے پابند نہیں ہیں۔

تحریک انصاف کی جانب سے گوشواروں کی پڑتال نہ کروانے اور الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے متعلق تمام درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کی جانب سے مسترد کر دی گئیں۔ نومبر 2014 سے لے کر آج تک تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے 24 تحریری حکم ناموں کی تعمیل نہ کرتے ہوئے جماعت کے اندرون ملک اور بیرون ملک کھاتوں کی تفصیلات جمع نہیں کروائیں۔ مارچ 2018 میں الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے بنک کے کھاتوں کے لئے ایک کمیٹی قائم کی۔

3 جولائی 2018 کو الیکشن کمیشن نے سٹیٹ بنک کو خط لکھ کر تحریک انصاف کے 2009 سے 2013 تک کے بنک کے کھاتوں کا ریکارڈ طلب کیا۔ 16 جولائی 2018 کو سٹیٹ بنک نے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے گوشواروں کی فہرست مہیا کر دی۔



یہ بھی پڑھیے: تحریک انصاف کے خلاف بیرونی فنڈنگ کیس سے متعلق تمام حقائق







جب الیکشن کمیشن نے ان کھاتوں کی جانچ پڑتال کی تو یہ معلوم ہوا کہ تحریک انصاف کے ملک بھر میں 23 بنک کے کھاتے موجود ہیں لیکن الیکشن کمیشن کو محض 8 بنک کے کھاتوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ ان ظاہر نہ کیے جانے والے بنک کھاتوں میں اربوں روپے کی ملکی اور غیر ملکی کرنسی کا لین دین ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ میں دو ایسی کمپنیاں سامنے آئیں جو عمران خان کے دستخطوں کے ساتھ قائم ہوئی تھیں اور جن سے غیر قانونی فارن فنڈنگ پوشیدہ ملکی بنک اکاؤنٹس میں منتقل کی جاتی تھیں۔

PTI USA LLC No. 5975 - USD سے 1,998,700 روپے پاکستان منتقل کیے گئے جبکہ PTI USA LLC No. 6160 کی جانب سے 669,000  امریکی ڈالر تحریک انصاف کے ملکی کھاتوں میں منتقل ہونے کا انکشاف ہوا۔ ایک اور آف شور کمپنی انصاف آسٹریلیا انکارپوریٹڈ نامی کمپنی آسٹریلیا میں قائم کی گئی جس کا بنک اکاؤنٹ نمبر 00102012397479527102 ہے۔ اس اکاؤنٹ سے پاکستان میں کتنی رقم منتقل ہوئی اس پر تحقیقات جاری ہیں۔ ابتدائی تحقیقات میں اس آف شور کمپنی کی جانب سے 32,500 آسٹریلین ڈالر تحریک انصاف پاکستان کے ظاہر نہ کیے گئے بنک گوشواروں میں بھیجے گئے۔

ان تینوں کمپنیوں کی جانب سے تحریک انصاف کے بنک کے کھاتوں میں بھیجی گئی رقوم قانون کے مطابق جرم ہیں۔ اسی طرح برطانیہ سے انیل مسرت اور صاحبزادہ جہانگیر تحریک انصاف کو فنڈ مہیا کرتے رہے۔ برطانیہ سے دو بنک اکاؤنٹ نمبروں 00191424 اور اکاؤنٹ نمبر 26675768 سے لاکھوں پاؤنڈز تحریک انصاف پاکستان کے خفیہ بنک اکاؤنٹس میں بھیجے جاتے رہے۔

ڈنمارک سے بھی رقم منتقلی کے شواہد الیکشن کمیشن میں جمع ہیں جبکہ متحدہ ارب امارات سے اربوں روپے کی فنڈنگ ذوالفقار علی خان، جنہیں اب یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کا چیئرمین منتخب کیا گیا ہے، اور ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی کے ذریعے حاصل کی گئی۔ جبکہ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے پاس سالانہ 52 ملین روپے ہنڈی کے ذریعے منگوانے کے شواہد بھی اکبر ایس بابر جمع کروا چکے ہیں۔



اس تمام ریکارڈ کی الیکشن کمیشن سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔

اکبر ایس بابر پر مصنف نے دوسرا الزام یہ لگایا کہ انہوں نے تحریک انصاف کے دفتر سے ان کھاتوں کی فوٹو کاپیاں چرا کر الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں۔ مصنف اگر قانون شہادت کے متعلق معلومات رکھتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اکبر ایس بابر نے قانون شہادت کے منافی اس طرح کی دستاویزات جمع کروائی ہوتیں تو پہلے روز ہی الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ اکبر ایس بابر کے تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کے مقدمے کو خارج کر دیتی۔ درحقیقت فارن فنڈنگ کیس ملکی تاریخ میں بیرون ملک سے غیر قانونی طریقوں اور آف شور کمپنیوں سے پارٹی فنڈز کے نام پر اربوں روپے کے غبن کا بہت بڑا مقدمہ ہے جس کا فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آنے کی صورت میں عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف دونوں پر تاحیات پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔

اس مقدمے میں روز اول سے تحریک انصاف نے تاخیری حربے استعمال کیے ہیں لیکن جلد یا بدیر اس مقدمے کا فیصلہ ضرور ہونا ہے جو ملکی تاریخ میں کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے پارٹی فنڈ میں غبن کا سب سے بڑا سکینڈل اور درست ثابت ہونے کی صورت میں بیرونی فنڈنگ حاصل کرنے کا اپنی نوعیت کا پہلا جرم ہو گا۔
مزیدخبریں