حال ہی میں مسلم لیگ ن کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے دوران نواز شریف نے پارٹی اراکین کے سامنے انکشاف کیا تھا کہ سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے 2014 کے حکومت مخالف دھرنے کے دوران رات گئے انہیں پیغام بھیجا تھا کہ ’آدھی رات تک استعفیٰ دے دیں اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو نتائج بھگتنا ہوں گے اور مارشل لاء بھی نافذ کیا جا سکتا ہے۔‘ نواز شریف نے کہا، ’میں نے جواب دیا کہ جو چاہیں کر لیں لیکن میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔‘ تاہم نواز شریف نے پیغام دینے والے کا نام نہیں بتایا۔ اس سے قبل نواز شریف نے اور نا ہی ظہیر الاسلام نے اس دھرنے سے متعلق کوئی بات کی تھی تاہم اب دونوں نے اپنا سخت موقف اپنا لیا ہے۔
یاد رہے کہ 2015 کےاختتام پر اس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کا نام لے کر ان کے عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے 2014 کے دھرنے کے دوران نواز شریف حکومت کو مبینہ طور پر غیر مستحکم کرنے میں کردار کا ذکر کیا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ حکومت کیخلاف ’لندن پلان‘ کی سازش کے پیچھے جنرل ظہیر الاسلام اور جنرل شجاع پاشا کا مشترکہ ہاتھ تھا۔
ایک اور موقع پر انٹرویو دیتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ 2014 کے اپریل میں حامد میر پر حملے کے بعد جنرل ظہیر کے حکومت کے ساتھ جیو کو لیکر معاملات بگڑ گئے تھے اور حکومت کی جانب سے اختیار کئے گئے موقف پر تنازع تھا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ظہیر نے اپنا ذاتی تنازع نمٹانے کیلئے قومی مفاد کو ٹھیس پہنچائی۔
اس وقت کی کابینہ کے ایک اور ممبر اور سینیٹر مشاہد اللہ خان نے بھی غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ انٹیلی جنس بیورو کے پاس وہ ٹیلی فون ریکارڈنگز موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کے خلاف سازش میں جنرل ظہیر الاسلام کا مرکزی کردار شامل رہا ہے۔