یہ کوئی راز نہیں کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ جنرل فیض ہی آئی ایس آئی کے سربراہ رہیں تاکہ وہ نہ صرف حزب اختلاف کو مسلسل دباؤ میں رکھیں بلکہ اُنہیں اگلے انتخابات میں اسی طرح کامیابی دلائیں جس طرح 2018 ء میں دلائی تھی۔ اس کے صلے میں عمران خان نے جنرل فیض کو نومبر 2022 میں آرمی چیف بنانے کا وعدہ کررکھا ہے۔ لیکن اس منصوبے کے بخیے ادھڑنے سے حالیہ بحران نے سر اُٹھا لیا۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عین ممکن ہے عمران خان اور جنرل فیض کو اس سوچ نے پریشان کردیا ہو کہ جنرل باجوہ اگلے سال ایک مرتبہ پھر مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں۔ سازش کی تھیوری ارزاں کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر جنرل باجوہ توسیع چاہتے ہیں اور عمران خان اُنہیں دے دیتے ہیں تو اس سے جنرل فیض کے عزائم پر پانی پھر جائے گا۔ لیکن اگر عمران خان جنرل باجوہ کو توسیع نہیں دیتے تووہ ممکنہ طور پر کوئی سیاسی داؤ کھیل سکتے ہیں (آئی ایس آئی کے ذریعے یا اگلے سال عام انتخابات میں)۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یقینی بنائیں گے کہ عمران خان کے جانشین سے توسیع ملازمت لیں، خاص طور پر اگر اس کی تخت نشینی میں ان کوئی کردار ہوا۔ اس صورت میں عمران خان اور جنرل فیض، دونوں کے عزائم چکنا چور ہو جائیں گے۔ اس لیے دونوں کا مشترکہ مفاد اسی میں ہے کہ وہ آئی ایس آئی کا کنٹرول سنبھالے رکھیں تاوقتیکہ اُن کی پوزیشن مستحکم ہوجائیں۔
لیکن سازش کی تھیوریاں ایک طرف، کچھ ٹھوس وجوہات ہیں کہ آخرکار اسٹبلشمنٹ کے قائدین عمران خان کے خلاف جنرل باجوہ کے پیچھے کیوں کھڑے ہیں۔ ایک وجہ تو حزب اختلاف بالعموم اور نواز شریف اور مریم نواز بالخصوص ہیں جوعوام کی بڑھتی ہوئی پریشانی کا رخ عمران خان کی بجائے اسٹبلشمنٹ کی طرف موڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اب اسٹبلشمنٹ عوامی ناراضی کی تمازت کو محسوس کررہی ہے۔ اور اس کی وجہ آئی ایس آئی کا زور زبردستی ایک غیر مقبول حکومت کو عوام پر مسلط کرنا اور کیے رکھنا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ میں تھری سٹار جنرلوں کو خوف ہے کہ اگر جنرل فیض حمید کو اگلا آرمی چیف بنا دیا جاتا ہے تو وہ اگلے چھ سال تک عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ اس سے ناصرف اُن کی آگے بڑھنے کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا بلکہ اس اہم ادارے کی ساکھ مزید خراب ہوگی۔
موجودہ بحران نے سٹیک ہولڈرز کو پیش آنے والی مشکلات سے جنم لیا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے لیڈر چاہتے ہیں کہ آئی ایس آئی انتہائی غیر مقبول ہوتے ہوئے عمران خان کی کھل کر اور اکثر اوقات جارحانہ سیاسی حمایت کرنے سے قدم پیچھے ہٹا کر انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے جنرل فیض حمید کو پشاور میں گیارویں کور کی کمان کرنے بھیجنے اور اُن کی جگہ جنرل ندیم انجم، موجودہ کور کمانڈر کراچی، کو ڈی جی آئی ایس آئی نامزد کرنے کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک عمران خان بطور وزیراعظم جنرل ندیم انجم کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی نامزدگی کا حکم نامہ جاری نہیں کرتے، جنرل فیض حمید، جنرل باجوہ کے حکم کے مطابق اس منصب سے سبکدوش ہو کر گیارویں کور میں نہیں جا سکتے۔
وزیراعظم حکم نامہ جاری کرنے میں پس وپیش سے کام لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ ڈیڈ لاک پیدا ہوا ہے۔ صورت حال خطرناک اس لیے ہوگئی ہے کیوں کہ طرفین اپنا اپنا موف کھل کر سامنے لے آئے۔ اب دونوں میں سے کوئی بھی قدم پیچھے ہٹا کر اپنی طاقت اور اختیار کھونا نہیں چاہے گا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی سویلین حکام سے ٹکراؤ ہوتا ہے، اسٹبلشمنٹ ہمیشہ جیتی ہے۔ تو پھر عمران خان نے اپنے طاقتورترین حامی کو اپنے ممکنہ حریف میں کیوں تبدیل کرلیا ہے؟ کچھ افراد دلیل دیتے ہیں کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ چکے ہیں۔ یہ اُن کی پہلی اور آخری مدت کی حکومت ہے۔ اس لیے اُنہوں نے انتخابات میں ذلت آمیز شکست کھا کر گمنامی کی دھند میں غائب ہونے کی بجائے ”سویلین بالا دستی“ کے نام پر قدم جما کر لڑنے اور سیاسی شہید بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ عمران خان کے اعتماد کی وجہ یہ یقین ہے کہ وہ اپنی روحانی پیر اور اہلیہ کی سیاسی رہنمائی کی وجہ سے اس صورتحال سے نکل سکتے ہیں۔
بے شک ”سویلین بالا دستی“کا اس صورت حال سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسے تصورات کے حوالے آئینی جمہوریتوں میں ہوتے ہیں جہاں جمہوری اور آئینی اداروں کا دفاع سولین کرتے ہیں، نہ کہ جہاں فراڈ اور انتخابی دھاندلی کے ذریعے قائم کردہ ہائبرڈ بندوبست میں ایک انتہائی خود سر اور انا پرست وزیر اعظم کو مسلط کر دیا جائے جو ریاستی اداروں، جیسا کہ ایف آئی اے، ایف بی آر، نیب، آئی ایس آئی، آئی بی کے ذریعے تمام جمہوری اور سیاسی اپوزیشن کو کچلنے پر تل جائے تاکہ وہ مطلق العنان حکمران بن جائے جو کسی کو جوابدہ ہو اور نہ کوئی اس کا مخالف ہو۔
بالکل یہی کیس نواز شریف کا بھی تھا جنہوں نے 1997-99 ء میں اپنی دوسری مدت کے دوران امیر المومنین بننے کی کوشش کی تھی اور اس کے لیے اپنے من پسند آرمی چیف کو نامزد کیا تھا۔
اب ہمارے سامنے کون سا راستہ ہے؟ ایک تو یہ کہ عمران خان یا جنرل باجوہ اپنی انا کو ایک طرف کرتے ہوئے دوسرے کی بالا دستی قبول کر لیں۔ واحد مسئلہ یہ ہے کہ جنرل باجوہ کے پیچھے تمام فوج متحد ہوکر کھڑی ہے جبکہ عمران خان کو کمزور سا سویلین سہارا بھی حاصل نہیں۔
درحقیقت اگر عمران خان نے اسٹبلشمنٹ کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو اُنہیں بھی 1999ء میں نوازشریف کی طرح اس کی بہت بھاری ذاتی اور سیاسی قیمت چکانی پڑے گی۔ اسٹبلشمنٹ کے پاس ہمیشہ آپشن ہوتے ہیں، چاہے قانونی طور پر ایسا ممکن نہ ہو۔ کیوں کہ اس کے پاس جسمانی طاقت ہوتی ہے۔ نہ تو 1977ء میں جنرل ضیا نے اور نہ ہی 1999ء میں پرویز مشرف نے سیاسی رہنماؤں کو منصب سے ہٹانے کے لیے اپنے سامنے دستیاب آپشن کا بغور جائزہ لینے کی زحمت کی تھی۔
اس وقت تو عمران خان انتہائی غیر مقبول ہیں اور عوام میں مقبول حزب اختلاف اُن کے اقتدار سے الگ ہونے کی دعائیں کررہی ہے۔ چاہے اُنہیں جائز وناجائز، کسی بھی طریقے سے ہٹا دیا جائے۔
بد قسمتی سے عمران خان نے بھی اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارنا ضروری سمجھا ہے۔ پہلے تو اُنہوں نے اسی اسٹبلشمنٹ کو زک پہنچانے کی کوشش کی جو اسے اقتدار تک لائی تھی اور اسے اب تک سہارا دے کرقائم رکھا تھا اور دوسرے یہ کہ اس بحران کو طوالت دیتے ہوئے بد اعتمادی اور شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کر لیا۔ اسٹبلشمنٹ بہرحال خیمے میں داخل ہونے والا ہاتھی ہے، اور ہاتھی کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے۔
اب عمران خان کے سامنے ایک کھائی ہے، جس میں انہیں ہر صورت اترنا ہے۔ اپوزیشن پوری کوشش کرے گی کہ اس ہائبرڈ بندوبست میں پڑنے والی دراڑیں گہری ہوتی جائیں۔ یہ بھی فطری بات یہ ہے کہ جو ریاستی ادارے، جیسا کہ عدلیہ، جو عمران خان کی انگلیوں کے اشارے پر چلتے ہیں، بدلتی ہوئی ہوا کا رخ پہچان لیں گے؟ تو کیا جب تحریک انصاف کی حکومت کو انتہائی ضرورت ہے، اسٹبلشمنٹ اس کے دفاع کے لیے کھڑی ہوگی؟