میڈیا رپورٹس کے مطابق اس طالبعلم نے یہ ویڈیو اپ لوڈ کرنے کیلئے سوشل میڈیا ایپ سنیپ چیٹ کا استعمال کیا۔ اس کے بعد امریکی تحقیقاتی اداروں اور انٹرپول کی دوڑیں لگ گئیں۔
واشنگٹن میں قائم انٹرپول کے آفس کی جانب سے پاکستانی حکام کو فوری طور پر ایک مراسلہ ارسال کرتے ہوئے خبردار کیا گیا کہ لاہور کے ایک سکول میں فائرنگ کا خطرہ ہے۔ اس خط میں طالبعلم کے گھر کا ایڈریس، مقام اور شناخت سمیت تمام معلومات درج تھیں جس کی مدد سے ایف آئی اے نے فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے اسے دھر لیا۔
مراسلے میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ یہ معلومات صرف اس لیے شیئر کی جا رہی ہیں کہ اس میں ممکنہ طورپر ایک سکول میں قتل عام کا خطرہ ہے اور اسے کئی افراد کی جان جا سکتی ہے۔
انٹرپول کے مراسلے میں ناصرف اس طالبعلم کا سنیپ چیٹ یوزر نیم دیا گیا بلکہ اس کا موبائل نمبر بھی دیا گیا تاھ تاکہ اس کو فوری طور پر ٹریس کرنے میں آسانی ہو۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ ہمیں انٹرپول کی جانب سے اس قسم کا الرٹ کبھی جاری نہیں ہوا تھا، اس لئے ہمارے لئے یہ ایک ہنگامی صورتحال تھی۔ معلومات ملتے ہی راتوں رات ٹیم تشکیل دی گئی اور اس بچے کو حراست میں لے لیا گیا۔
تاہم ایف آئی اے حکام نے بتایا دلچسپ صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ اس طالبعلم سے برآمد ہونے والا پستول نقلی تھا۔ جب اس سے تفتیش کی گئی تو پتا چلا کہ وہ گزشتہ دو روز سے سنیپ چیٹ پر اس قسم کی سٹوریز لگا رہا تھا۔
ایف آئی اے سائبر کرائم نے بتایا کہ سنیپ چیٹ کے آرٹیفیشل انٹیلی جنس سافٹ ویئر نے لاہور میں موجود طالبعلم کے پاس پستول کی موجودگی کو رپورٹ کرتے ہوئے فوری طور پر انٹرنیشل پولیس سے تمام معلومات شیئر کیں اور پھر دونوں ممالک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ سنیپ چیٹ پر نقلی پستول لہرانے کی سٹوری لگانے والے طالبعلم کو کئی گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد شخصی ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔
تاہم ایف آئی اے نے اس طالبعلم کو انڈر آبزرویشن رکھا ہوا ہے کیونکہ اس بات کی چھان بین بھی ضروری ہے کہ یہ نوجوان اس طرح کے خیالات کیوں رکھتا ہے؟