امریکی صدر کے اس قدر بے دھڑک بیان نے پاکستان کی حکومت اور سیاسی و عسکری حلقوں کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ امریکہ پہلے بھی پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی سکیورٹی کے بارے میں کئی دفعہ اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔ مگر اس دفعہ امریکی صدر سے پاکستان کو خطرناک ملک قرار دینا ایک معنی خیز بات ہے۔
امریکی صدر کے بیان کے سیاق و سباق کو جاننا بہت ضروری ہے۔ جو بائیڈن نے یہ بات اس وقت کہی جب وہ امریکہ کو درپیش خارجہ پالیسی کے چیلینجز کی بات کر رہے تھے۔ پاکستان کے بارے میں بات کرنے سے پہلے ان کا کہنا تھا کہ چین کے بہت سارے مسائل ہیں، گو چین کے صدر زی چن پنگ جانتے ہیں کہ ان کو کیا کرنا ہے مگر مسائل زیادہ ہیں۔ امریکہ ان مسائل کو کس طرح سے سنبھالے گا۔ امریکہ ان مسائل سے کیسے نمٹے گا، وہ بھی اس وقت جو کچھ روس میں ہو رہا ہے۔ ان کا مطلب تھا کہ چین، روس اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی سکیورٹی جیسے مسائل ایک ساتھ وقوع پذیر ہونے والے عالمی چیلنجز سے امریکہ کس طرح نبرد آزما ہو گا۔
جو بائیڈن جیسے ڈپلومیسی پہ یقین رکھنے والے صدر کے لیے پاکستان جیسے ایک اہم اتحادی ملک کے لیے اس طرح کے سخت جملے کہنا معیوب ضرور ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ امریکہ کے لیے گلوبل جیو پولیٹیکل مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کی عالمی امور پر گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کے اندرونی حالات کافی کشیدہ ہیں۔ امریکہ کو اپنے جمہوری اداروں کی ساکھ اور بقا کی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔ ڈیمو کریٹس ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ یا اسی طرح کا کوئی مائنڈ سیٹ رکھنے والا لیڈر دوبارہ امریکہ کا صدر نہ بن سکے۔ امریکہ میں نومبرمیں مڈ ٹرم الیکشن ہو رہے ہیں۔ جو بائیڈن ایڈمنسٹریشن کی پوری کوشش ہے کہ الیکشن میں کامیابی حاصل کی جائے۔ الیکشن کی مہم میں سیاسی لیڈر اکثر وہی بولتے ہیں جو ان کے ووٹرز سننا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ جو بائیڈن کی پاکستان کے بارے میں بے باکی بھی الیکشن کی مہم کا ایک ہتھکنڈا نظر آتی ہے۔ جو بائیڈن نے صرف پاکستان نہیں بلکہ مڈ ٹرم الیکشن کے بعد سارے عالمی حریفوں سے نمٹنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ریپبلکن پارٹی کے ووٹرز کو متاثر کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اکثر جارحانہ خارجہ پالیسی کو پسند کرتے ہیں جیسا کہ ماضی میں صدر ٹرمپ چین اور مسلمان ملکوں پر پابندیاں لگا کر چکے ہیں۔
مگر امریکی صدر کے اس سخت بیان کے بعد پاکستان کا کیا ردعمل ہونا چاہئیے جبکہ وہ بھی اس وقت جب پاکستان کے آرمی چیف اور وزیر خارجہ ابھی حال ہی میں امریکہ کا دورہ مکمل کر کے واپس آئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے آج کراچی میں ایک پریس کانفرنس کی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی سکیورٹی پہ خدشات کا اظہار کرنے کی بجائے انڈیا کی طرف توجہ دینی چاہئیے جس نے کچھ عرصہ قبل "غلطی" سے پاکستان کی طرف ایک میزائل فائر کر دیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی صدر کا بیان امریکہ اور پاکستان کے مابین رابطوں کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ یہ بیان اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے جو کافی عرصے سے پاکستان اور امریکہ کے مابین چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ کو پاکستان کے بارے میں تحفظات ہیں تو اس کو پاکستان سے بات کرنی چاہئیے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ کے سفیر کو دفتر خارجہ میں بلا کر پاکستان کی حکومت کا احتجاج ریکارڈ کروایا جائے گا اور پاکستان کے خدشات امریکہ تک پہنچائے جائیں گے۔ پاکستان امریکہ کے تعلقات کے مستقبل کے بارے میں ان کا کہا تھا کہ ان کو نہیں لگتا کہ امریکہ صدر کے اس بیان سے تعلقات پہ کوئی منفی اثر پڑے گا۔
وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر نے امریکی صدر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر کا پاکستان پر الزام بالکل بے بنیاد ہے۔ انٹرنیشنل ادارے کئی دفعہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی سکیورٹی کو محفوظ قرار دے چکے ہیں۔
اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اسد عمر نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ امریکی صدر پاکستان کی غیر ہم آہنگی کی بجائے شاید اپنے ملک کی اندرونی تقسیم کی بات کر رہے ہیں جو ٹرمپ کے حامیوں کے امریکی دارالحکومت پر حملے کے بعد پیدا ہو چکی ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ جو ملک خود شیشے کے گھروں میں رہتے ہیں، ان کو دوسروں پر پتھر نہیں پھینکنے چاہئیں۔
بلاشبہ افغانستان سے نکل جانے کے بعد امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ امریکہ کی عالمی ترجیحات تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو جیو پولیٹیکل معاملات میں پاکستان کی مکمل وفاداری کے ساتھ جوڑ سکتا ہے جس میں چین اور روس کے خلاف امریکہ کی واضح طرف داری کرنا۔ مگر اپنے مسائل سے الجھے ہوئے پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ پاکستان کو چاہئیے کہ روس اور چین کے ساتھ مل کر اپنا فوکس علاقائی سیاست پہ مرکوز کرے جس سے امریکہ پر پاکستان کا انحصار کم ہو سکے۔