عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے نااہلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ میری سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ موجودہ حکومت ہمیں معاشی تباہی کی طرف لے جانے اور این آر او ٹو کے ذریعے وائٹ کالر مجرموں کو ملک کو لوٹنے کا لائسنس دینے کے ساتھ ساتھ ہماری قومی سلامتی پر بھی سمجھوتہ کر لے گی۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر مشکلات میں گھرا ہوا ہے، ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد کی جانب سے اس قسم کے ردعمل پر کئی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی لوگ پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ عمران خان کی سوچ میں کب پختگی آئے گی، کب انہیں احساس ہوگا کہ وہ قومی سطح کے رہنما ہیں اور یہ بھی کہ انہیں کب اس بات کا ادراک ہوگا کہ بطور سیاسی رہنما کے ان پر کس قسم کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ انہیں یہ کون سمجھائے گا کہ کب کتنی بات کرنی ہے اور کب کون سی بات نہیں کرنی؟ انہیں کب اس بات کی سمجھ آئے گی کہ ملکی مفاد کے لیے ذاتی اختلافات کو قومی سلامتی پر فوقیت نہیں دی جاتی۔
بیش تر سیاسی تجزیہ نگار متنق ہیں کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب کرنے میں جتنا کردار عمران خان نے خود ادا کیا ہے اتنا کسی اور سیاسی جماعت کے رہنما نے نہیں کیا۔ ایک بے بنیاد سفارتی خط کو وجہ بنا کر امریکہ کو سرعام سازشی ملک قرار دینے کا بیانیہ کس نے گھڑا تھا؟ آڈیو لیکس نے جس سازش کا پردہ فاش کیا ہے وہ کس ملک کے خلاف تیار کی جا رہی تھی اور عمران خان اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے ساتھ کون سا کھیل کھیلنے کی منصوبے بندیاں بنا رہے تھے؟ عمران خان کے جہاں اور بہت سے مسائل ہیں وہیں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کی یادداشت بہت کمزور ہے اور اس سے بھی برا حال ان کے فالوورز کا ہے۔ عمران خان کے حمایتی ان سے یہ سوال کیوں نہیں پوچھ رہے کہ پاکستان کے بارے میں امریکہ کی رائے میں اس قدر نمایان تبدیلی کس وجہ سے آئی ہے۔ جب سے عمران خان اقتدار سے الگ ہوئے ہیں، حکومت پاکستان کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں کہ کسی طریقے سے امریکہ کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے جائیں۔ سویلین حکومت کے علاوہ پاکستان فوج بھی عمران خان کا پھیلایا ہوا رائتہ سمیٹنے میں مصروف ہے۔ جس نہج پر حالات آج پہنچے ہیں، یہ کسی اور نے نہیں عمران خان نے خود ہی پہنچائے ہیں۔
عمران خان کا یہ ردعمل ان کے اپنے اس بیانیے کے خلاف جاتا ہے جس کے مطابق امریکہ نے پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر سازش تیار کی اور عمران خان کی حکومت کو ختم کیا۔ اگر امریکہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ ہوتا اور اسے صرف عمران خان سے مسئلہ ہوتا تو اب جبکہ ملک میں اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے، اس وقت امریکہ پاکستان کے بارے میں ایسا بیان کیوں جاری کرتا؟ یہ بیان تو امریکہ کو تب جاری کرنا چاہئیے تھا جب عمران خان اس ملک کے وزیراعظم تھے۔ تو یہ حال ہے ایک ملکی سطح کے رہنما کا کہ ان کا ہر نیا بیان ان کے پچھلے نظریات کی تنسیخ کرتا جاتا ہے۔ سیاسی نا پختگی اور کسے کہتے ہیں؟
یاد رہے کہ جمعرات کو ڈیموکریٹک کانگریشنل کیمپین کمیٹی کے استقبالیے میں کی گئی اپنی تقریر کے دوران امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اُن کے خیال میں پاکستان شاید دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کے پاس موجود جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں۔ امریکی صدر کے یہ ریمارکس بدلتے عالمی سیاسی منظرنامے کے تناظر میں دیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے سیاسی منظرنامے میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے اور متعدد ممالک اپنے اتحاد کے بارے میں نظرثانی کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پاکستان جو ایک عرصے تک امریکہ کا اہم شراکت دار رہا تھا اس کے بارے میں امریکہ کی نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی 2022 کی رپورٹ میں کوئی تذکرہ تک نہیں کیا گیا تھا جبکہ اس رپورٹ میں چین کو امریکہ کا سب سے اہم جیو پولیٹیکل چیلنج قرار دیا گیا ہے۔ 48 صفحات پر مشتمل دستاویز میں جنوبی اور وسطی ایشیائی خطے میں دہشت گردی اور دیگر جیو سٹریٹیجک خطرات کا ذکر تو موجود ہے لیکن گزشتہ برسوں کے برعکس اس میں پاکستان کو ان خطرات سے نمٹنے کے لیے بطور اتحادی نہیں لکھا گیا ہے۔ 2021 کے سٹریٹجی پیپر میں بھی پاکستان کا نام موجود نہیں تھا۔