پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی برائے جبری مذہبی تبدیلی کا اجلاس سینیٹر انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں ہوا جس میں وزارت انسانی حقوق کے افسران، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان اور سندھ سے آئے ہوئے نیشنل کمیشن برائے اقلیتوں کے چئیرمین نے شرکت کی.
ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر دارشان نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہندو لڑکیوں کی اغوا اور جبری مذہبی تبدیلی میں پولیس اور عدلیہ کا کردار ہمیشہ جانبدار ہوتا ہے. انھوں نے مزید کہا کہ پولیس کا کردار ہمیشہ سے جبری مذہبی تبدیلیوں میں ہندو کے مخالف رہا. ڈاکٹر دارشن نے کہا کہ جب مسلمانوں کی لڑکیاں اغوا ہوتی ہے تو ان پر سخت ایکشن لیا جاتا ہے لیکن جب بات سندھ کی ہندو بچیوں کا آتی ہے تو پولیس مجرموں کی سہولت کاری کرتی ہے کیونکہ صوبہ سندھ میں ہندو بچیوں کی جبری مذہبی تبدیلی ایک سنگین مسئلہ ہے.
کمیٹی کے چیئرمین انوار الحق کاکڑ نے کہا جب تک ہم سندھ کا دورہ نہیں کرینگے تب تک مسائل کا ادراک نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس کمیٹی کی کوئی افادیت نظر آئیگی کیونکہ اسلام آباد میں بیٹھ کر ہم مسائل کا حل تلاش نہیں کرسکتے.
کمیٹی میں ڈاکٹر رمیشن کمار نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب تک قانون نہیں بنے گا تب تک جبری مذہبی تبدیلی کو نہیں روکا جاسکتا اور جو لڑکیاں جبری طور پر مذہبی تبدیلی کا شکار ہوجاتی ہے ان کو کمیٹی میں بلا کر ان کیمرہ تاثرات لئے جائیں۔
رمیش کمار نے مزید کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ سندھ میں مذہب کی جبری تبدیلی نہیں ہورہی کیونکہ میں تمام لڑکیوں سے ملا اور انھوں نے بتایا کہ ان پر کتنے مظالم ہوئے.
کمیٹی کو وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے دو تجاویز پیش کی جس کو کمیٹی نے مسترد کئے. علی محمد خان نے پہلی تجویز دی کہ اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے سندھ سے میاں مٹھو کو بلایا جائے اور اگر وہ نہیں آتے تو پھر ان کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کریں جس پر کمیٹی کے چیئرمین انوار الحق کاکڑ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کی فورم پر میاں مٹھو کو نہیں بلا سکتے. علی محمد خان نے دوسری تجویز پیش کی کہ مذہب کی جبری تبدیلیوں پر مولانا طارق جمیل صاحب کو بلا کر ان سے وعظ و نصیحت کی جائے تاکہ لوگوں کو مذہب کے حوالے سے معلومات ملیں۔ جس پر پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینیٹر رانا مقبول احمد نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ مولانا طارق جمیل کو ہم نہیں بلا سکتے کیونکہ ان سے مسائل بڑھ جائینگے اور ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا. انھوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر مذہب کی جبری تبدیلیوں میں مولیوں کا ہاتھ ہوتا ہے اس لئے ہم پارلیمنٹ کے فورم پر کسی مولانا کو نہیں بلائینگے کیونکہ ہم وعظ و نصیحت نہیں قانون سازی کی طرف جانا ہوگا اور اس سے ہی مسائل حل ہونگے.
رانا مقبول نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب ہمارے پاس اسلامی نظریاتی کونسل جیسا بڑا اور محقق ادارہ موجود ہے تو پھر ہم ان سے کیوں رہنمائی نہیں لے رہے کیونکہ انھوں نے پہلے بھی اس پر کام کیا ہے اور اگر قانون سازی میں ضرورت پڑی تو ہم ان سے رائے لینگے.
کمیٹی نے سندھ میں مذہب کی جبری تبدیلیوں پر آئی جی سندھ کو آئندہ اجلاس میں پیش ہونے کے احکامات جاری کئے.