بحیثیت قوم ہمارا وطیرہ بن گیا ہے کہ جس پر ظلم ہوا ہے اس کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے اور جب تک وہ یہ نہ کہے کہ ہاں جو کچھ بھی ہوا ہے اس سب میں صرف اور صرف میری غلطی ہے اور میں اپنی غلطی پر نادم ہوں۔ لہذا ملک یا اس کے کسی ادارے پر انٖصاف کی فراہمی اور مجرم کو سزا دینے کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ بصورت دیگر مجرم کو پکڑنے کے لئے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ایک ذمہ دار اور فعال نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔جہاں جنس، عقیدے، علاقائی، جغرافیائی حتی کہ کسی بنیاد پر اپ کیساتھ کوئی امتیاز نہیں برتی جاسکتی۔ لیکن اپ چونکہ اس ملک کے شہری ہیں۔ جس میں جمہوریت ہے۔ اپ نے ووٹ دے کرسیاسی نمائندے منتخب کئے ہیں۔ اپ ٹیکس دیتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر اپ ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں جس کا آئین آپ کے تمام تر حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ جہاں اب بھی آپ کی امید باقی ہے کہ اگر اپ کیساتھ کسی بھی قسم کا کوئی ظلم یا زیادتی ہوگی۔ تو عوام اور نظام آپ کو کٹہرے میں کھٹرا کرنے کے بجائے اپ کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور نقصان کا مداوا کرنے کی بھر پور کوشش کریگی اور ہر صورت میں اپ کا ساتھ دے گی۔
لیکن افسوس کہ انصاف کے حصول کا خواب اگر اپکے اپنے محافظ ہی توڑ دیں تو پھر وہ رہی سہی امید کہاں قائم رہتی ہے کہ اپ کے ملک کا نظام اپ کو انصاف دلائے گا۔
جب سے موٹروے حادثہ پیش آیا ہے۔ لوگ سوشل میڈیا، گلی محلوں، دفتروں اور گھروں میں اس خاتون کی کوتاہیوں کا تذکرہ کرتے نہیں تھک رہے۔ اور ایسے میں ہمارے لاہور کے سی سی پی او صاحب کا بیان اتا ہے اور وہ بھی ہمارے معاشرے میں موجود سوچ پر اپنی پکی مہر لگا کر کہتے ہیں کہ اس خاتون کو گھر سے رات کے اندھیرے میں نکلنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اکیلی کیوں نکلی ؟ پٹرول کیوں چیک نہیں کیا؟اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ خاتون فرانس سے پاکستان ابھی حال ہی میں واپس ائی تھی اور رات کو نکل پڑی کیونکہ شاید وہ یہ بھول گئی کہ یہ پاکستان ہے فرانس نہیں؟ واہ سی سی پی او صاحب، ہمیں نہیں پتہ کہ اپ نے کس کی حفاظت کا حلف لیا تھا؟ آپ بحیثیت پولیس افیسر اپنی ملک کی خواتین کو ڈرا رہیں ہیں کہ وہ گھر سے نہ نکلے ؟ کیونکہ یہ فرانس نہیں پاکستان ہے۔ اور ہمارا معاشرہ غیر محفوظ ہے؟ لیکن اپ سے کیا گلہ اپ کوئی مریخ سے تو اتر کے نہیں آئے، اسی پاکستان سے ہیں جس کے زیادہ تر لوگوں کو سارا مسئلہ عورت کے کپڑوں اور اسکی کردار میں نظر آتا ہے؟ انصاف کے رہے سہے نظام سے ہمارا بھروسہ ختم کرنے کا شکریہ سی سی پی او صاحب؟ اب ہم خواتین جب بھی گھر سے قدم نکالیں گے اپ کا دیا ہوا ڈر اور خوف ہمارے ساتھ سائے کی طرح ہمراہ ہوگا۔ اور ہمارے گھر والے تب تک بے سکون رہیں گے جب تک ہم عورتیں گھر سے باہر ہونگی۔ کیونکہ گھر سے باہر جانا تو ہماری ضرورت ہے۔ ہم نے نوکری بھی کرنی ہے، تعلیم بھی حاصل کرنا ہے اور اپنے حصے کا ہر وہ قدم اٹھانا ہے جس کے نتیجے میں ایک نہ ایک دن ہمارا یہ ملک پاکستان خواتین کے لئے ،ایک محفوظ ملک نہیں بن جاتا۔ ہم گھرپر بیٹھ گئیں اور یہ ملک وہ لوگ چلائیں جن کو ہر بےحیائی اور برائی صرف عورت میں نظر اتی ہے تو پھر تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ہمارے اس گھٹن زدہ معاشرے میں ہم عورتوں کو کسی کام کے لئے گھر سے باہر جانے کی اجازت اتنی اسانی سے ملتی ہی کہاں ہے؟ تاکہ ہم بھی ملازمیتیں کرسکیں، تعلیم حاصل کر سکیں۔ کیونکہ ترقی کے عمل میں شرکت کا ہمارا اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا ہے۔ لیکن کیا اپ کو لگتا ہے اپ کے بیان کے بعد اب والدین، شوہر اور بھائی ان خواتین کو اجازت دے سکیں گے ؟ اور مطمئن رہ سکیں گے ؟ سی سی پی او صاحب آپ اب معافی مانگ لیں یا مستعفی ہوجائیں اپ نے جس سوچ پر مہر ثبت کی ہے اس نے لاکھوں خواتین کی تعلیم، ملازمتوں اور گھر سے انے جانے پر تالے ثبت کردیئے۔ اپ کا ایک دفعہ پھر ، بہت بہت شکریہ۔
سی سی پی اوکے بیان نے ہر اس انسان کی سوچ کو تقویت دی جو سمجھتا ہے کہ عورت کو گھر سے نکلنا نہیں چاہیئے۔ اور اگر گھر سے نکلتی ہے تومحرم کے بغیر گھر سے نہ نکلے۔ اور ہاں پردہ ضرور کرے ورنہ اس کاریپ ہوجائیگا۔ لیکن یہ لوگ دلیل سنیں تو ہم کہیں کہ حقائق اور اعدادوشمار کی رو سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ریپ کے بہت سارے کیسیز ایسے بھی ہیں جو گھروں کے اندر وقوع پزیر ہوئے ہیں ۔ بہت سارے کیسز میں گھر کے بہت ہی قریبی مرد ملوث پائے گئے ہیں ۔ جو محرم کے کٹیگری میں اتے ہیں۔اور جہاں تک پردے کی بات ہے تو مروا، زینب اور ان جیسی کئی بچے بچیوں کیساتھ جنسی زیادتی اور بعد میں بہیمانہ قتل اس لئے ہوئے کہ انھوں نے پردہ نہیں کیا تھا؟ ہوش کریں اورحقیقت جان کر جئیں، ہمارے ہاں گھر تو کیا قبرتک محفوظ نہیں ہے۔ کیا آپ لوگوں کو نہیں لگتا کہ ہم نے عورت کی حیا پر اس قدر زور دیا ہوا ہے کہ ہمیں احساس تک نہ ہوا کہ مرد کس حد تک بےحیا ہو چکے ہیں۔عورت کے لئے پردے کا حکم ہے تو مرد کے لئے کیا یہ حکم نہیں کہ نظریں جھکا کے چلے نہ کہ ہر راہ چلتی عورت اور معصوم بچی کو تفریح کا سامان سمجھ کر دبوچ لے؟
ان حیلوں بہانوں سے آپ ریپیسٹ کی حوصلہ افزائی کر رہیں ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔یہ ریپیسٹ ہمارے اس پاس یہیں کہیں موجود ہیں جوہم سب پر ہنس رہیں ہیں ۔اپ انکی ریپیسٹ ذہینیت کو مزید بڑھاوا دے رہیں ہیں۔
جن کے بچے، بچیوں اور گھر کی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے ذرا ان سے جا کر پوچھ لیں۔ کبھی ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ایا ہوگا کہ ان کیساتھ کبھی ایسا حادثہ پیش آسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پیش ایا۔ اور وہ اس درد اور اذیت سے اب روز گزرتے ہیں۔اپ جب تک ریپیسٹ کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے اور جن کیساتھ زیادتی ہوئی ہے ان کیساتھ کھڑے نہیں ہونگے ،آپ مروا، زینب اور ان جیسے ہزاروں بچے ، بچیوں اور خواتین کو اور ان کے گھر والوں کو اذیت کے وہ لمحے بار بار یاد دلاتے رہیں گے اور ان کے زخم کریدتے رہیں گے۔
قوم کے حیادار اور غیور مرد و خواتین سے میری ایک ہی درخواست ہے کہ اپنے گھسے پھٹے سوالات اور خیالات، دونوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سعی کریں، اپنی سوچ بدلیں۔ جگہیں اور کپڑے بدلنے سے ریپ جیسے جرائم کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ بلکہ اپ کی سوچ کا زاویہ بدلے گا تو یہ جرم ختم ہوگا۔ انصاف کے نظام میں موجود کمیوں اور خامیوں پر بات کر یں اور پالیسی ساز اداروں سے موثر قانون سازی اور اس پر سختی سے عملدرامد کا مطالبہ کریں۔ مظلوم کیساتھ تب تک کھڑے رہیں جب تک اسے انصاف نہ ملے۔ یکے بعد دیگرے نت نئے حادثات کا انتظار نہ کریں۔ ورنہ آنے والے وقت میں کسی کے پاس یہ ضمانت نہیں کہ بر بریت کی یہ آگ صرف دوسروں کو جلا سکتی ہے۔ اور میں، آپ اور ہمارے پیارے اس سے محفوظ رہیں گے۔ آئیں ملکر ، ہم ٓاواز ہوکر ریپ کیخلاف اپنی اپنی بساط کیمطابق جہاد کریں