نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ایسا فیصلہ سنایا ہے جو مکمل طور پر عمران خان کے حق میں جاتا ہے۔ فیصلے کے تحت نیب آرڈی ننس میں ہونے والی بعض ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جبکہ بعض ترامیم ایسی ہیں جنہیں برقرار رکھا گیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم بنچ کے مذکورہ فیصلے سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ریلیف ملے گا کیونکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے نیب قانون میں ہونے والی ایسی ترامیم کو چیلنج ہی نہیں کیا تھا جو ان کے مفاد میں ہیں۔ عدالت نے بھی اپنے فیصلے میں عمران خان کے حق میں جانے والی ترامیم کو برقرار رکھا ہے۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی عمران وسیم کا۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں عمران وسیم نے کہا کہ نیب قانون میں ہونے والی ترامیم میں سے ایک ترمیم یہ بھی تھی کہ نیب کی جانب سے جسمانی ریمانڈ اب 90 دن کا نہیں ہو گا اور اسے ایک ماہ تک محدود کر دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ ترمیم برقرار رکھی گئی ہے۔ اگر یہ ترمیم بھی کالعدم ہو جاتی تو توشہ خانہ کیس اور القادر ٹرسٹ میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا بھی 90 دن کا ریمانڈ ہوتا۔ نیب ترامیم سے قبل عدالتوں سے ضمانت حاصل کرنا بہت مشکل معاملہ تھا۔ نیب قانون میں ترمیم کی گئی کہ ملزمان ٹرائل کورٹ یا احتساب عدالت سے ضمانت حاصل کر سکتے ہیں۔ ملزمان گرفتاری کے نوٹس سے پہلے متعلقہ ٹرائل کورٹ سے ضمانت حاصل کر سکتے ہیں، اس ترمیم کو بھی کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔ عمران خان سائفر کیس میں رہائی کی صورت میں ٹرائل کورٹ سے ضمانت لے سکتے ہیں۔ انہیں ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کرنا پڑے گا۔ بشریٰ بی بی تو پہلے ہی القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت پر ہیں۔
نیب قانون میں ہونے والی ایک اور ترمیم کے مطابق انکوائری لیول پر ملزم کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ انکوائری مکمل ہونے کے بعد ملزم کو اس کی کاپی دی جائے گی۔ جب انکوئری کو تحقیقات میں تبدیل کیا جائے گا تو اس کے بعد ملزم کی گرفتاری ہو سکے گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس ترمیم کو بھی برقرار رکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور ان کے وکلا نے سوچتے سمجھتے ہوئے اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے ان تین ترامیم کو اپنی درخواست میں چیلنج ہی نہیں کیا تھا۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ فیصلہ عمران خان کے حق میں آیا ہے۔
عمران وسیم کے مطابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے نیب ترامیم کے خلاف درخواستوں پر جو فیصلہ سنایا وہ غیر متوقع نہیں تھا۔ جب اس کیس کی سماعت کے لیے تین رکنی بنچ بنا تھا اور گذشتہ سال 19 جولائی کو عمران خان کی درخواست پر پہلی سماعت ہوئی تھی تو تبھی سے سوشل میڈیا پر اس کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا تھا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں جو بنچ بنا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں، اس کیس میں دو ایک سے فیصلہ عمران خان کے حق میں سنایا جائے گا۔ ماہرین قانون بھی یہی بتاتے رہے ہیں کہ نیب ترامیم پر ایسا ہی فیصلہ سنایا جائے گا۔ اسی پیش گوئی کے عین مطابق اس کیس کا فیصلہ دو ایک کے تناسب سے سنایا گیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بنچ کے اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
جب نیب ترامیم کے خلاف یہ درخواست دائر کی گئی تھی تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا کہ یہ قابل سماعت کیسے ہے؟ وفاقی حکومت کے وکلا اور اٹارنی جنرل نے بھی اعتراض کیا کہ یہ درخواست ناقابل سماعت ہے۔ درخواست میں بینادی حقوق کی خلاف ورزی کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی۔ لیکن چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن نے عمران خان کی اس درخواست کو قابل سماعت قرار دے دیا۔ نیب کے قانون میں جو ترمیم کی گئی کہ 50 کروڑ سے زائد کی کرپشن کی تحقیقات نیب کر سکتا ہے، اس ترمیم کو سپریم کورٹ نے آج کے فیصلے میں کالعدم قرار دیا ہے جس کے بعد نیب کے پاس دوبارہ یہ اختیار آ گیا ہے کہ ادارہ 50 لاکھ سے زائد کی کرپشن کی تحقیقات کر سکتا ہے۔
مذکورہ ترمیم کے کالعدم ہونے کے بعد 50 کروڑ مالیت سے کم کے جتنے بھی کیسز احتساب عدالت سے نیب کو واپس بھیجے گئے تھے، تمام کیسز عدالتوں میں بحال ہو جائیں گے، خواہ وہ کیس شریف خاندان یا زرداری خاندان کے تھے، اومنی گروپ کے یا دیگر سیاست دانوں کے تھے۔ جو کیسز نیب کو واپس بھجوا دیے گئے تھے وہ عدالتوں کو دوبارہ بھیجے جائیں گے۔ عوامی عہدے رکھنے والے سیاست دانوں کے خلاف ریفرنسز بحال ہو جائیں گے۔
آمدن سے زائد اثاثہ جات والی ترمیم کو عدالت نے اس حد تک برقرار رکھا کہ جس سے سرکاری افسران کو فائدہ ہو گا۔ عدالت نے سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شقیں برقرار رکھی ہیں۔ سپریم کورٹ نے احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کے تحت دیے گئے تمام فیصلے بھی کالعدم قرار دے دیے ہیں جس کے بعد احتساب عدالتوں کے وہ فیصلے جو 50 کروڑ سے کم مالیت کی کرپشن کے کیسز نیب کو واپس بھیجنے کے لیے دیے گئے تھے تمام کالعدم ہو گئے ہیں۔ تمام تحقیقات جو 50 کروڑ والی ترمیم کے بعد بند کر دی گئی تھیں، سپریم کورٹ کے فیصلے میں ان تمام انکوائریوں کو بحال کر دیا گیا ہے۔ نیب کو حکم بھی جاری کیا گیا کہ تمام متعلقہ ریکارڈ جو احتساب عدالتوں نے واپس بھیجا تھا، یا جن تحقیقات کو بند کیا گیا تھا ان تمام چیزوں کو پھر سے بحال کر دیں اور کیسز دوبارہ عدالتوں کو بھجوائیں۔
ان ترامیم سے شریف خاندان کو بھی نقصان پہنچے گا۔ نواز شریف کے خلاف گاڑی حاصل کرنے کا توشہ خانہ کیس بھی 50 کروڑ مالیت سے کم ہونے کی وجہ سے واپس بھیجا گیا تھا۔ یہ کیس بھی کھل جائے گا۔ ان کے خلاف میر شکیل الرحمان کے ساتھ پلاٹوں کے معاملے والا کیس شاید نہیں کھلے گا کیونکہ احتساب عدالت نے نیب ترامیم سے پہلے ہی مرکزی ملزم کو بری کر دیا تھا۔
سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نیب ترامیم سے فائدہ ملا تھا اور ان کے خلاف توشہ خانہ کا کیس 50 کروڑ مالیت سے کم ہونے کی وجہ سے واپس بھیجا گیا تھا تاہم اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ کیسز بھی بحال ہو جائیں گے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنس اور پی ایس او میں تقرریوں کا معاملہ تھا، وہ بھی اسی ترمیم کے تحت واپس ہوئے تھے۔ ان کیسز کو ایف آئی اے کی خصوصی عدالتوں میں منتقل کر دیا گیا تھا لیکن اب یہ کیسز بھی دوبارہ بحال ہو جائیں گے۔
اسی طرح سابق وزیر اعظم اور موجودہ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور پلانٹس کا کیس دوبارہ اسلام آباد کی احتساب عدالت میں بحال ہو جائے گا۔ اومنی گروپ کے انور مجید اور عبدالغنی مجید فیک اکاؤنٹس کیس، آصف علی زرداری کے خلاف پنک ریذیڈنسی والا فیک اکاؤنٹ کیس بھی دوبارہ بحال ہو جائے گا۔
یہ نیب ترامیم 2022 میں کی گئی تھیں۔ عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو انہوں نے اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیا لیکن جب نیب ترامیم پارلیمنٹ سے پاس ہوئیں تو انہوں نے نیب ترامیم کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ انہوں نے نیب ترامیم اپنے آپ کو این آر او دینے کے لیے یکطرفہ طور پر منظور کی ہیں۔ عمران خان نے خواجہ حارث کی خدمات حاصل کیں۔ 27 جون 2022 کو نیب ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ اس کیس کی سماعت کے لیے جو بنچ بنا اس نے 19 جولائی کو پہلی سماعت کی جس کے بعد وفاقی حکومت، نیب، وزارت قانون اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کر دیے گئے۔ 53 سماعتوں کے بعد چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بنچ نے 5 ستمبر کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
19 اگست کو جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے کہا گیا کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ نہیں ہوتا، نیب ترامیم کیس پر سماعت روک دی جائے یا پھر فُل کورٹ سماعت کی جائے جس پر بنچ نے وفاقی حکومت اور اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ فُل کورٹ سماعت کی ضرورت پر دلائل دیں۔ اس پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے فُل کورٹ بنانے کی استدعا کی جو چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کثرت رائے سے مسترد کر دی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا کہ یہ قانون پارلیمنٹ سے پاس ہوا تھا اور پارلیمنٹ کے بھگوڑے شخص نے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ کسی سیاسی جماعت یا عام شہری نے تو نیب ترامیم کو چیلنج نہیں کیا۔ ان ریمارکس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اگر آج پبلک نوٹس جاری کریں تو شکایات کے انبار لگ جائیں گے۔ اس پر وفاقی وکیل نے عدالت سے کہا کہ بنیادی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے لیکن اگر ایسا ہے تو آپ پبلک نوٹس جاری کر دیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک سال پہلے یہ نوٹس کر سکتے تھے لیکن اب چونکہ وقت کم ہے اور ہم فیصلہ محفوظ کرنے جا رہے ہیں تو ہماری طرف سے 'شارٹ اینڈ سویٹ' فیصلہ جاری کیا جائے گا۔