طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں صحافیوں سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا:’’دوحہ میں ہونے جا رہے مذاکرات میں خواتین بھی شریک ہوں گی۔‘‘
واضح رہے کہ افغان حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ دوحہ مذاکرات میں شرکت کے لیے 150 رُکنی وفد میں شامل ارکان کے ناموں کو حتمی شکل دینے کے قریب ہیں۔ حکام نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان مذاکرات میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شریک ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں: افغان خواتین کو اپنے لیے آواز اٹھانے کے قابل ہونا چاہئے، انجلینا جولی
ذرائع کے مطابق، امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچ چکے ہیں جہاں ابتدائی مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ تاہم امریکی ایلچی نے ان دعوئوں کی تصدیق نہیں کی۔ انہوں نے گزشتہ روز بہت سے ٹویٹ کیے جن میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں پائیدار جنگ بندی پر توجہ دے رہے ہیں۔
انہوں نے ٹویٹ کیا:’’افغان عوام ان مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی اور دیرپا امن کی خواہش رکھتے ہیں اور اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔ امریکا ان کے اس مؤقف کی حمایت کرتا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ اشارہ دیا تھا کہ دوحہ مذاکرات کا اگلا دور طے شدہ شیڈول سے پہلے شروع ہونے کے علاوہ ’’نتیجہ خیز‘‘ ثابت ہو سکتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے طالبان کی جانب سے اپنے وفد میں خواتین کو شامل کیے جانے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے،’’رجعت پسند فکر کے باعث بدنام زمانہ گروہ نے عوامی مطالبات کے بعد وفد میں خواتین کو شامل کیا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: امریکہ طالبان مذاکرات میں حقیقی کامیابی کا دعویٰ
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کہتے ہیں،’’یہ خواتین طالبان کی سینئر قیادت کی رشتہ دار نہیں ہیں۔ یہ افغانستان اور بیرون ملک مقیم عام افغان خواتین ہیں جو اسلامی امارات کی جدوجہد میں شریک رہی ہیں یا اس فکر کی حامی ہیں۔ ‘‘ تاہم، انہوں نے ان خواتین کے نام ظاہر نہیں کیے جو وفد میں شامل ہوں گی۔