یہ واقعہ 2019 کا ہے جب جنوبی کوریا کے ایک ہسپتال کی لیبارٹری میں کام کرنے والے شخص کا معاملہ سامنے آیا جو ایک سوپر مارکیٹ میں اپنے خاندان کے ساتھ گھومتے ہوئے خواتین کی سکرٹ کی تصاویر بناتے پکڑا گیا تھا۔پولیس کو ان کے فون میں اس کے ساتھ کام کرنے والی متعدد خواتین کی ویڈیوز بھی ملیں۔
اینا بھی اسی ہسپتال میں کام کرتی تھی۔ ایک سال گزرنے پر اسکی تصویر ہاتھوں میں تھامے، کھڑکی کی طرف دیکھ کر اپنے آنسو چھپاتے اینا کے ادھیڑ عمر والد بتاتے ہیں کہ میری بیٹی نے ایک دن مجھے بہت غصے میں فون کیا۔ اس نے مجھے اپنی خفیہ طور پر بنائی گئی ویڈیو کے بارے میں بتایا اور کہا کہ اس کے ساتھ ایسا کرنے والا شخص ان کے ساتھ کام کرتا تھا۔
اس شخص نے خواتین کے لاکر جہاں سب خواتین بریک میں موجود ہوتیں اور وہ انکے لئے مخصوص حصہ تھا، اس کے سامنے کتابوں والی الماری میں ایک سوراخ کر کے ایک کیمرا چھپایا ہوا تھا۔اس کیمرے سے خواتین کے کپڑے بدلتے ہوئے ویڈیوز بنائی گئی تھیں۔ ان میں سے چند خواتین صرف زیر جامہ پہنے ہوئے تھیں جبکہ کچھ بالکل برہنہ۔
اینا کے والد نے کہا کہ شاید میں اپنی بیٹی کی جان بچا سکتا تھا لیکن میں ایسا نہ کر سکا اور یہ بہت بھاری احساس ہے۔‘ اینا کی کی والدہ نے بتایا کہ ’اس ویڈیو میں دیگر خواتین کی شرمگاہیں عیاں تھیں۔ ہم نے خود وہ ویڈیو نہیں دیکھی، ہماری بیٹی نے ہمیں یہ سب کچھ بتایا تھا۔‘
اینا کے والد نے کہا ’شاید ہماری بیٹی کے جسم کی بھی ویڈیو بنائی گئی تھی لیکن وہ اپنے منگیتر کے ساتھ تھی شاید اس لیے وہ ہمیں سب کچھ نہیں بتا سکی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کی تکلیف کیسے بیان کریں؟ وہ کس قدر دکھ اور تکلیف میں رہی ہو گی کہاسنے اس دنیا سے ہی چھٹکارہ حاصل کرنا آسان سمجھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ‘میری بیٹی کو شرمندگی کی فکر تھی۔ انہوں نے اس وقت اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ میں نے اس سے کہا کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی نے تمہاری عصمت دری کر دی ہو۔ ویسے بھی تم نے کچھ غلط نہیں کیا ہے، تم مکمل خود اعتمادی کے ساتھ زندگی جیو۔’
انھوں نے کہا ’میں بہت زیادہ عملی اعتبار سے بات کر رہا تھ میں اس کو شاید نہ سمجھ سکا نہ اپنا آپ سمجھا سکا۔
اینا کو بُرے بُرے خواب آنے لگے تھے اور اسے ڈاکٹر نے ڈیپریشن کے علاج کی دوا دی تھی۔ تاہم پھر اسکا منگیتر اسکے ساتھ رہنے لگا۔ اس کے ساتھ رہنے لگا تاکہ اس کا خیال رکھ سکے۔ لیکن چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک رات والدین کو وہ خوفناک فون کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ اسنے 17ویں منزل سے چھلانگ لگائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کال نے مجھے حواس باختہ کردیا تھا۔
اینا کے والد آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ صرف جبلی ہوس کی خاطر ہم کیوں دوسروں پر زندگی ہی تنگ کر دیتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ یہ احساس انہیں بھی شاید زیادہ دیر جینے نہ دے کہ میری بیٹی کو شاید میں بچا سکتا تھا تاہم ایسا نہ کرسکا۔