’مذہبی بحث غیر دانشورانہ اور سطحی ہو گئی ہے، لوگ سطحیت سے خوش ہیں‘

01:40 AM, 16 Aug, 2020

زمان خاں
معروف محقق Professor Piotr Balcerowiecz پولینڈ میں پیدا ہوئے جہاں وہ فلسفہ، اوریئنٹل سٹیڈیز اور بین الاقوامی تعلقات پڑھاتے ہیں۔ وہ پولش اکیڈمی آف سائنس کی کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ وہ 1980 کے وسط سے جنوبی ایشیا، پاکستان، ہندوستان اور افغانستان ہر سال آتے ہیں۔ وہ کئی زبانیں بول سکتے ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ پاکستان کی کئی یونیورسٹیوں میں آتے ہیں۔ ان کے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے دورے پر ان سے بات چیت کا خلاصہ:

زمان خاں کا سوال: آپ نے تعلیم و تحقیق کا شعبہ کیوں منتخب کیا؟

جواب: مجھے ہمیشہ نئی باتیں سیکھنے کا شوق تھا۔ مجھے سائنس کے مختلف شعبوں اسٹرانومی، فزکس اور میتھ میں دلچسپی تھی جس کی وجہ سے میری فلسفے میں دلچسپی بڑھ گئی۔ میں نے قدیم یونانی، سنسکرت پالی اور پراکرت بھی سیکھی جس سے مجھے قدیم فلسفیوں کے مختلف خیالات اور نظریات سمجھنے میں مدد ملی۔ پھر میں نے ان زبانوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ تعلیم کے شعبے میں مجھے اپنی دلچسپیوں کو بڑھانے میں آزادی ملی۔ بعض دفعہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں بے کار بھی رہا اور صرف اپنی ہوبی [شغل] سے کماتا تھا۔

دراصل تعلیم کے شعبے میں مجھے روزی کمانے کے ساتھ ساتھ اپنی تحقیق اور ذاتی دلچسپیوں میں مدد ملی۔

سوال: بنیادی طور پر آپ کی تحقیق کے کون کون سے شعبہ جات ہیں؟

جواب: مختلف ہیں۔ میں کبھی بھی ایک شعبے تک محدود نہیں رہا۔ میں ہمیشہ مختلف شعبوں میں دلچسپی لیتا رہا ہوں۔ گو یہ شعبے ظاہری طور پر مختلف لگیں مگر یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں لیکن ان کا فلسفہ ایک ہے۔

میری دلچسپی سیاسی فلسفہ، خاص کر ایشیا کا سیای فلسفہ [جنوبی ایشیا، سنڑل ایشیا اور اسلامی دنیا]، جنوبی ایشیائی زبانیں [سنسکرت، پرکرتی اور پالی]، جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کی تہذیبیں، جنوبی ایشیائی فلسفہ خاص کر قدیم ہندوستانی فلسفہ اور تقابلی فلسفہ [مشرق اور مغرب]، کثیر الثقافتی جگہوں میں انسانی حقوق، ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں بین الاقوامی تعلقات، جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں موجودہ تاریخ اور سیاست، تضادی حرکیات [جدل کی حرکیات]، تضاد کی مینجمنٹ، نسلی و مذہبی تضاد اور دہشت گردی، غیر سرکاری تنظیموں اور ترقی کے نظریہ اور عمل میں خود تعلیم برائے امن کی غیر سرکاری تنظیم کا بانی ہوں۔

سوال: آپ کی اسلامی ریاست کے نظریہ میں کیسے دلچسپی پیدا ہوئی۔ آپ کا کیا خیال ہے داعش اور القائدہ وغیرہ تنظمین کامیاب ہوں گی؟ آپ مشرق وسطیٰ میں اقتدار کی کشمکش کا کیا نتیجہ دیکھتے ہیں؟

جواب: میں پچھلے بیس، تیس سالوں سے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں آ رہا ہوں کیونکہ میری دلچسپی بین الاقوامی تعلقات، مذہب اور تضاد میں ہے۔ اس لئے آپ ایسے گروہوں کے ظہور، نام نہاد القاعدہ سے آنکھیں نہیں موڑ سکتے۔ امریکہ کے ہاتھوں عراق کی حکومت کی تباہی، مشرق وسطیٰ میں اور خطے میں دوسری حکومتوں کی پشت پناہی اور مشرق وسطیٰ کے انتشار کا منطقی نتیجہ داعش کا ظہور تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے، سرد جنگ سے بھی بڑا، وہ ہے داعش۔ میں اس دور کو تیسری جنگ عظیم کی طرف رینگتا دیکھ رہا ہوں۔

میرے خِیال میں داعش اور اس جیسی دوسری تنظییں اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گی مگر یہ شائد کئی دہائیوں تک دنیا کا نقشہ تبدیل کر دیں اور بنی نوع انسان کے سامنے پیش آنے والے خطرات میں سب سے زیادہ خطرناک ہوں۔

سوال: لگتا ہے کہ آپ جمہویت سے مایوس ہو گئے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے جمہوریت کا کیا متبادل ہو سکتا ہے جو کہ انسان کی بہتری کے لئے ہو؟

جواب: نہیں، میں جمہوریت سے مایوس نہیں ہوں بلکہ میں تو جمہوریت کو واحد اچھا سیایی نظام سمجھتا ہوں جس میں تمام گروہوں کے مفادات کی ترجمانی اور عزت ہوتی ہے۔ بعض طرح سے یہ جمہوری اداروں کی بنیادی جڑوں کی توسیع ہے جو کہ بنیادی سطح پر گاؤں یا قبیلے کی شوریٰ میں رائج ہے۔ جس چیز سے میں بد زن ہوں اور جس پر مجھے غصہ ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح سے جمہوریت کے تصور کو امریکہ نے حال کی تاریخ میں مسلسل غلط طور پر استعمال کیا ہے، جو کہ سعودی عرب کی وحشی حکومت اور نسل پرست اور ظالم اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں لیکن جمہوری تبدیلیوں کی مسلسل مخالفت کرتے ہیں جن کے نتیجے میں جمہوری حکومتیں قائم ہوں اور جو کہ ضروری نہیں کہ امریکہ کے تابع نہ ہوں۔ میرے خیال میں جمہوریت کا کوئی متبادل انسانی حقوق کا نہیں ہے کیونکہ یہ ہی ایک نظام ہے جو خاطر خواہ انسانی حقوق کا دفاع کرتا ہے۔ جو کہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ بلا لحاظ نسل، ثقافت اور مذہبی پس منظر کے۔ پھر میرا دعویٰ ہے کہ جمہوری نظام تمام مذاہب سے لگاؤ کھاتا ہے۔ جو کہتے ہیں کہ اسلام میں جمہوریت کی گنجائش نہیں ہے وہ یا تو جمہوریت کو پوری طرح نہیں جانتے یا وہ اس کو امریکہ کے ساتھ گڈ مڈ کرتے ہیں۔ جب کہ امریکہ اور دوسری طاغوتی طاقتوں کا اپنا ایجنڈا ہے جس سے سیاست اور معاشرے کو پوری طرح زیر نگیں کرنا چاہتے ہیں۔ وہ دنیا کوکنڑول کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک ہی وقت میں جمہوریت کو رد نہیں کر سکتے۔ اس کے ساتھ سب انسانوں کی برابری اور ان کے برابری کے حقوق اور جن کا اللہ پر اعتقاد، جن کے سامنے سب کے برابر کے حقوق ہیں اور سب برابر ہیں۔ ایک سچے مسلمان کو ایک سچا جمہوریت پسند ہونا چاہیے۔

مسئلہ یہ ہے کہ میری نظر میں سچی جمہوریت کا دور گزر گیا ہے، یقیناً ختم ہو گیا ہے۔ ہم ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں، Soft Regime یعنی نرم حکومت کا دور۔ میں ان ریاستوں کو سوفٹ رجیم کہتا ہوں جو بعض چیزوں کو قائم رکھنا چاہتی ہیں، جمہوری ڈھانچہ، جیسے قومی الیکشن، بعض چیزوں پر فیصلہ کرنے کا عوام کے حق کا عمل۔ اس کے ساتھ ہی اصل فیصلہ ایک اشرافیہ کا چھوٹا سا ٹولہ کرتا ہے جس کے پاس وسائل، طاقت، ملڑی کی طاقت، سرمایہ اور میڈیا ہو۔ ایسی حکومتیں بہت سارے لوگوں کو قابل قبول معیار زندگی دینے میں دلچسپی رکھتی ہو۔ لوگوں کو غربت سے نکالے، گو ان کے اثر و رسوخ کے دائرہ اور دولت میں اضافہ ہوتا رہے۔ نرم حکومت اس بات کو یقیقنی بنائے گی کہ لوگ اس سے مایوس نہ ہوں اور اسے تبدیل کرنا نہ چاہیں لیکن اس کے ساتھ وہ اختلاف رائے کو ناممکن بنا دے گی۔ اس لئے کہ سب منحرفین پر حکومت کی نظر ہو گی [دوسرے شہریوں کی طرح] یا ان کے پاس جدید ہتھیاروں کی وجہ سے یہ ممکن بنا دے گی، جس سے وہ اختلاف کو فوراً دبا دے گی۔ جس کو ہم پہلے ہی اب دیکھ رہے ہیں۔

سوال: آپ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: میں ان میں کوئی بہتری نہیں دیکھ رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ایک حد میں خود کشی کے راستے پر چل رہے ہیں۔ دونوں ملکوں میں سیاسی انتظامیہ پرامن حل ڈھونڈنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ کیونکہ دشمنی رکھ کر وہ اپنے حمایتیوں کے ووٹ حاسل کر سکتے ہیں۔ مودی کے جیتنے سے حالات میں جو تبدیلی آئی ہے اس نے ویزوں کو اور مشکل بنا دیا ہے، کیوں کہ دائیں بازو کے انتہا پسند خیالات و نظریات، ہندوتوا پر مبنی خیالات لوگوں میں وہی قوم پرستی اور مذہبی انتہا پسندی کےخیالات گھسیڑے گا جو پاکستان میں تعلیم کے نظام میں جنرل ضیا کے زمانے میں تھے اور موجودہ حالات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہندوستان ایسے خیالات و نظریات سے کچھ عرصہ بچا رہا مگر اب حالات بدل چکے ہیں اور اس کا پاکستان کے ساتھ مستقبل میں تعلقات پر منفی اثر ہوگا۔ پاکستان میں بھی سیا ستدان ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ سیاسی طاقت خوف پر منحصر ہے، جو ہمسایوں سے ہے۔ خوف بالکل وہم اور خیالی ہے۔ ہندوستان کبھی بھی پاکستان کو تباہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس کی کئی وجوحات ہیں۔ ایک بہت ہی سادہ ہے اس سے ہندوستان میں مسلمان اقلیت کی تعداد دگنی ہو جائے گی۔ مودی کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا۔

سوال: آپ پاکستان، انڈیا اور افغانستان کی ریاستوں کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا وہ اس حالت اور ہئیت میں قائم رہیں گیں؟

جواب: ان تینوں ریاستوں کی سرحدیں مصنوعی ہیں جن میں نسلی شناخت کی جھلک نہیں ہے۔ یہ سب قوم کا نظریہ اپنے شہریوں پر مسلط کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اس عمل کو روکا نہیں گیا جس کی وجہ سے انتشار، دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی پھیلی ہے۔ اسے اگر جلد ہی سنجیدگی سے نہ روکا گیا تو پاکستان 20 سالوں میں خود بخود ختم ہو جائے گا۔ یہ سومالیہ، افغانستان کی طرح کی ایک مثال بن جائے گا اور تباہ ہو جائے گا۔

افغانستان میں دسمبر 2001 سے امریکی قبضہ کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکا، بنیادی مسئلہ غربت اور معیشت وغیرہ ہے جو کہ تشدد کے عمل کو بڑھاتے ہیں اور لوگوں میں مایوسی، اتنشار پیدا کرتے ہیں اور طالبان تحریک۔

انڈیا کے زندہ رہنے کے بہترین مواقع ہیں مگر پھر ایک دائیں بازو کا انتہا پسند، فاشسٹ نظریہ جس کی بنیاد ہندوتوا پر ہو، ایک ایسے فرقہ وارانہ تشدد کو جنم دے سکتا ہے جس کا کبھی ہندوستان کو تجربہ نہیں ہوا۔

سوال: موجودہ جدید دنیا میں ایران پہلی مذہبی ریاست ہے، یہ کیوں اور کیسے وجود میں آ گئی؟ آپ اس کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟

جواب: ایران میں مذہبی ریاست کا وجود میں آنا سب کے لئے حیران کن تھا۔ نہ صرف رضا شاہ پہلوی بلکہ آیت اللہ خمینی کے لئے بھی، اور بہت بڑے حمایتی گروپ، جس میں مشرقی تاجر، کمیونسٹ، لیفٹسٹ، لبرل جمہوریت پسند وغیرہ، جن کی مدد کے بغیر انقلاب کامیاب ںہیں ہو سکتا تھا۔ بہر حال عوام، یا مذہبی گروپ، جنہوں نے اس کی کامیابی میں بہت بنیادی اہم کردار ادا کیا، ان کو اس بات کا شعور نہیں تھا کہ جلد ہی وہ اس انقلاب کا خود شکار ہو جائیں گے۔ اس لحاظ سے اسلامی انقلاب نے 1789 کے فرانسیسی انقلاب کی تقلید کی۔ انقلابی خود تشدد کے دور میں اس کا شکار ہو گئے۔

عام خیال کے برعکس جیسا کہ اس کے ناقد سمجھتے ہیں ایران بہت ہی جدید ہے اور یہ یقیناً رضا شاہ پہلوی کے تشدد کے دور سے بہتر ہے۔ مزید یہ اپنے ہمسایوں کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

مجھے حیرانگی ہے کہ ایرانی حکومت ذمہ دار ہے۔ اگر اس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہوں تو۔ لیکن یہ جمہوری نظام سے کوسوں دور ہے جس میں بنیادی انسانی حقوق ہوں، جس میں ہر شہری کی رائے کا احترام ہو، ہر شخص کو اپنے ہنر کو بڑھانے کا آزادانہ موقع ملے، کیونکہ اس کے لئے حقیقی سول لبرٹیز اور سماجی اور سیاسی آزادیوں کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں ایسا کوئی عمل نہیں دیکھ رہا جو کہ اسلامی نظام کو بدل دے، سوائے آیت اللہ خامنائی کی موت کے بعد اندر سے آہستہ سے تبدیلی کے عمل کو تیز کرے، گو مجھے اس کی کوئی امید نہیں ہے۔ شاید ایسی تبدیلی ممکن ہو جیسی کہ اٹلی میں ڈکٹیٹر جنرل فرانکو کی 1975 موت کے بعد، عام سیاسی تبدیلی کے بعد ایسا عمل ہو کہ بادشاہت بحال کر دی جائے۔ جو کہ ابتدائی طور پر فاشزم کی حامی تھی مگر اس نے ایک دم ایسا انقلابی پلٹا کھایا کہ سارا نظام ایک صحت مند اور متحرک جمہوریت میں تبدیل ہو گیا۔

سوال: کیا آپ کا خیال ہے کہ مذہب دنیا میں غالب بنیادی کردار ادا کرتا رہے گا؟

جواب: میرے خیال میں ہاں۔ میں اس کو بد قسمتی کہوں گا۔ کیونکہ مذہب بنیادی طور پر خدا اور بندے کے درمیان رشتے کا تعین کرتا ہے۔ ایک دفعہ یہ سیاسی، سماجی اور نجی زندگی کے پہلو ریگولیٹ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے تو یہ مذہب نہیں رہتا۔ بلکہ ایک جبر کا نظریہ بن جاتا ہے جس کو اشرافیہ استعمال کرتی ہے جس کا بنیادی مقصد طاقت حاصل کرنا ہے اور ان کا مقصد عوام کی بھلائی نہیں ہوتا۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ مذہب پہلے سے زیادہ غالب کردار ادا کرے گا۔ کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ پچھلے 20 سالوں کے سیاسی عمل میں یہ کم دانشورانہ ہو گیا ہے اور اس کا انحصار مختلف قسم کے جذبات، نفرت اور عوامیت پر ہو گیا ہے جو آسانی اور کامیابی سے ان پڑھ لوگوں کو زیادہ اپیل کرتا ہے، زیادہ مدلل مکالمے کی نسبت۔ اس کے علاوہ دنیا بہت پیچیدہ ہو گئی ہے اور تجزیہ کرنا مشکل ہو گیا ہے اور بہت سارے لوگ عام جواب سے مطمئن ہیں۔
مزیدخبریں