تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں کشتی الٹنے کا افسوسناک حادثہ تحصیل صادق آباد کی یونین کونسل ماچھکہ میں پیش آیا،حادثے کا شکار ہونے والی کشتی روجھان کی دریائی یونین کونسل کھروڑسے تحصیل صادق آبادکی دریائی یونین کونسل ماچھکہ آرہی تھی، پولیس ذرائع کے مطابق حادثے کی شکار ہونے والی کشتی میں 100سے زائد افراد سوار تھے۔ اس حادثے میں لقمہ اجل بننے والے افراد میں 90فیصد خواتین اور بچے شامل تھے کیونکہ انہیں تیرنا نہیں آتا تھا، بدقسمتی سے تیراکی کو ایک ایسی مہارت سمجھا جاتا ہے جو مردوں کیلئے ضروری ہے مگر خواتین کیلئے نہیں۔
پاکستان کی تاریخ سیلابوں سے بھری پڑی ہے، پاکستان میں سیلاب جولائی 2010 کے آخر میں شروع ہوا، خیبر پختونخوا، سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے علاقوں میں مون سون کی شدید بارشوں کے نتیجے میں دریائے سندھ شدید متاثر ہوا۔ پاکستان کے کل زمینی رقبے کا تقریباً پانچواں حصہ سیلاب سے متاثر ہوا، صوبہ خیبر پختونخوا کو جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا (90% سے زیادہ اموات اسی صوبے میں ہوئیں)۔ ملک بھر میں، 1,985 اموات ہوئیں۔ پاکستانی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، سیلاب سے تقریباً 20 ملین افراد براہ راست متاثر ہوئے، بہت سے گھروں کھڑی فصلوں اور زمینی رقبے کو نقصان پہنچا۔
ستمبر 2011 میں، کم از کم 361 افراد ہلاک ہوئے، تقریباً 5.3 ملین افراد اور 1.2 ملین گھر متاثر ہوئے اور ساتھ ہی 1.7 ملین ایکڑ قابل کاشت اراضی زیر آب آگئی جب صوبہ سندھ میں بڑے پیمانے پر سیلاب آیا۔
ستمبر 2012 میں خیبرپختونخوا، جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ میں شدید بارشوں سے 100 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں گھر تباہ ہوئے، ہزاروں ایکڑ قابل کاشت اراضی متاثر ہوئی۔ ستمبر 2013 میں، 80 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ۔پاکستان میں ستمبر 2014 میں جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ پنجاب میں زبردست بارش کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان پہنچا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 147 افراد لقمہ اجل بنے۔
2022 میں موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر اس دفعہ بارشیں معمول سے 500 فیصد زیادہ ہوئیں۔ جس کی وجہ سے ملک کا کثیر حصہ سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔
رپورٹس کے مطابق پاکستان بھر میں مون سون کے 5 ہفتوں سے زیادہ کی بارشوں اور اچانک سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد 600 تک پہنچ گئی ہے۔ جون کے وسط سے، سیلاب نے ندیوں میں طغیانی اور اونچے اور نیچے دوجے کے سیلابوں نے مختلف مقامات پہ نظام زندگی منجمند کردیا ۔ اور شاہراہوں اور پلوں کو نقصان پہنچا جس سے بہت سے دیہات کا زمینی رابطہ منتقطع ہو چکا۔ تقریباً 9000 گھر مکمل طور پر تباہ یا جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔
خاص طور پر سب سے زیادہ متاثر جنوب مغربی صوبہ بلوچستان تھا، جہاں بارش سے متعلق واقعات اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب میں188 افراد ہلاک ہوئے، اس کے بعد جنوبی صوبہ سندھ میں 100 کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ افغانستان کی سرحد سے متصل شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں بھی 61 اور مشرقی پنجاب میں 60 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں اور کم از کم 284 افراد زخمی ہیں۔
2020 میں، سیلاب کی وجہ سے دنیا بھر میں 6000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جو ایک دہائی میں ریکارڈ کی جانے والی دوسری بڑی تعداد ہے۔ اس کے باوجود، 1999 میں ریکارڈ کیے گئے اس عرصے کے عروج کے مقابلے میں مرنے والوں کی یہ تعداد کم ہے۔ اس سال، تقریباً 35 ہزار لوگ سیلاب کے نتیجے میں ہلاک ہوئے، زیادہ تر پچھلی صدی کے مہلک ترین سیلابوں میں سے ایک کا نتیجہ تھا، جس نے وینزویلا کو نشانہ بنایا۔
Neumayer اور Plümper نے 141 ممالک میں آفات کا تجزیہ کیا اور پایا کہ جب موت کی بات آتی ہے تو صنفی اختلافات کا براہ راست تعلق خواتین کے معاشی اور سماجی حقوق سے ہوتا ہے۔ ان معاشروں میں جہاں خواتین اور مردوں کو مساوی حقوق حاصل تھے، آفات کی وجہ سے دونوں جنسوں میں یکساں تعداد میں اموات ہوئیں۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ تضادات موجودہ عدم مساوات کا نتیجہ ہیں۔ مثال کے طور پر، بچاؤ کی کوششوں کے دوران لڑکوں کو ترجیحی سلوک دیا گیا اور آفات کے بعد، خواتین اور لڑکیوں دونوں کو خوراک اور معاشی وسائل کی کمی کا سامنا کرنا پڑا (نیومائر اور پلمپر، 2007)۔
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف قدرتی آفات کے دوران مردوں کے مقابلے میں خواتین، لڑکوں اور لڑکیوں کے مرنے کے امکانات 14 گنا زیادہ ہوتے ہیں (پیٹرسن، 2007)۔ 1991 میں، بنگلہ دیش میں طوفانی آفات کے دوران، مرنے والے 140,000 افراد میں 90% خواتین تھیں اور یہی حالات سری لنکا میں بھی دیکھے گئے۔
سونامی کے دوران مردوں کے لیے زندہ رہنا آسان تھا کیونکہ تیراکی اور درختوں پر چڑھنے کا طریقہ بنیادی طور پر لڑکوں کو سکھایا جاتا ہے۔ اس سماجی تعصب کا مطلب یہ ہے کہ سری لنکا میں لڑکیوں اور خواتین کے مستقبل کی آفات میں زندہ رہنے کے بہت کم امکانات ہیں (Oxfam, 2005)۔
اس حادثہ میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں ۔ اس سے ثابت ہوا جیسے گھر کے کچھ کام سیکھنا زندگی گزارنے کیلئے ضروری ہے جیسے کھانا بنانا ایک ایسی مہارت ہے جو ہر شخص ( مرد اور عورت کی تمیز کئے بغیر )کو آنا چاہیے اسی طرح تیراکی بھی زندگی میں ایک اہم اور ناگزیر مہارت ہے جسے سیکھنا مرد اور عورت سب کیلئے بہت ضروری ہے کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر حال مون سون کی بارشوں سے آنے والے سیلاب میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں وہاں تیراکی سیکھنا بہت ضروری ہے اور یہ مہارت سیکھنا صرف مردوں کے لئے نہیں بلکہ عورت کیلئے بھی اتنا ہی ضروری ہے ۔
گزشتہ دنوں جب ایک ڈاکٹر جوڑے کی وڈیو وائرل ہوئی جس میں انہوں نے سی پی آر کرتے ہوئے بچے کی جان بچائی تو وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے سی پی آر کو زندگی بچانے والی اہم مہارت قرار دیتے ہوئے اسے سکول اور کالج میں سیکھانے کا باقاعدہ حکم دیا ۔ اسی طرح پاکستان جیسے ملک میں جو موسمیاتی اثرات سے باقاعدہ متاثر ہونے والے ملکوں کی فہرست میں پانچویں نمبر پہ ہے جہاں مون سون کے موسم میں شدید بارشیں ہوتی ہیں اور ہر سال سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں وہاں تیراکی سیکھنا ایک انتہائی اہم کام ہے ۔ وزیراعظم کو چاہیے نہ صرف اس پہ قانون سازی کرکے اسے زندگی بچانے والی مہارت میں شامل کیا جائے بلکہ ترجیی بنیادوں پہ عورتوں کو تیراکی سیکھانے کیلئے بہترین اقدامات کئے جائیں ۔