دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے جس امریکی فرم کے ساتھ 2022 میں معاہدہ کیا اس پر واشنگٹن میں تعینات رہنے والے سابق پاکستانی سفیر اسد مجید خان کے دستخط بھی موجود ہیں۔ اسد مجید خان نے وہ بدنام زمانہ خط لکھا تھا جسے عمران خان نے امریکی خط قرار دے کر اپنی فراغت کا الزام امریکہ پر عائد کر دیا تھا۔
سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق تحریک انصاف حکومت کے امریکی فرم سے معاہدے پر اسد مجید خان نے 22 مارچ 2022 کو دستخط کیے تھے جب کہ عمران خان نے بطور وزیر اعظم اسلام آباد کی پریڈ گراؤنڈ میں اسد مجید خان کا لکھا ہوا سازشی خط چند روز بعد 27 مارچ 2022 کو لہرایا تھا۔
گذشتہ دنوں پی ٹی آئی کا امریکی لابنگ فرم کے ساتھ معاہدہ سامنے آیا تھا جس کا مقصد امریکی انتظامیہ اور میڈیا میں اپنے لئے ایک مثبت رائے عامہ پیدا کرنا ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے یہ اس قسم کا پہلا معاہدہ نہیں۔ گذشتہ چند ماہ میں پی ٹی آئی اس طرح کے تین معاہدے کر چکی ہے۔ ان معاہدوں کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب بائیڈن انتظامیہ نے اقتدار سنبھالا۔ سابق ٹرمپ انتظامیہ سے عمران خان حکومت کے تعلقات بہت بہتر تھے اور جب عمران خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو ان کی ڈانلڈ ٹرمپ اور ان کے داماد جیرڈ کشنر نے بہت آؤ بھگت کی تھی۔ بعد ازاں پی آئی اے کی ملکیت امریکہ میں واقع روزوویلٹ ہوٹل بیچنے کے موقع پر بھی ٹرمپ کا نام سامنے آیا تھا۔
تاہم، بائیڈن انتظامیہ کے ٹیک اوور کے بعد امریکہ کے ساتھ عمران خان حکومت کے تعلقات میں سرد مہری آتی چلی گئی۔ اسی موقع پر پی ٹی آئی نے لابنگ فرمز کے ساتھ معاہدے کرنے کا فیصلہ کیا اور ان میں سے ایک کمپنی رابرٹ لارنٹ گرینیئر کی تھی جو کہ ماضی میں پاکستان میں امریکی CIA کے سٹیشن چیف رہ چکے ہیں۔ یہ معاہدہ عمران خان کی جانب سے ان کے مشیر افتخار درانی نے کیا۔ اس معاہدے کے تحت اس کمپنی کو 25 ہزار ڈالر فی ماہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس کے علاوہ دیگر اخراجات بھی ادا کیے جانے تھے۔
اس معاہدے کی مدت چھ ماہ تھی جو کہ مئی 2021 میں شروع ہوا اور دسمبر 2021 میں ختم ہوا۔ رابرٹ گرینیئر 2001 میں پاکستان میں CIA کے سٹیشن چیف تھے جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا۔ بعد میں عراق میں بھی تعینات رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ایک لابنگ فرم کھول لی جس کے ساتھ اب عمران خان نے بھی معاہدہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ جس زمانے میں یہ موصوف پاکستان میں تعینات تھے، عمران خان بھی جنرل پرویز مشرف کے بڑے پرجوش حامی اور افغانستان جنگ پر ان کا دفاع کیا کرتے تھے۔ یہ جنرل مشرف کے خاصے قریب بھی تھے۔ عمران خان کو جنرل مشرف نے اپنا ایک کتا بھی بطور تحفہ دیا تھا۔ بعد ازاں جنرل مشرف سے تعلقات خراب ہوئے تو عمران خان نے افغانستان میں امریکی جنگ کی بھی بھرپور مخالفت شروع کر دی۔
امریکی قانون کے مطابق لابنگ کمپنیز کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام معاہدے پبلک کرے تاکہ حکومت اور عوام کو پتہ ہو کہ کون سی امریکی کمپنی کسی غیر ملکی کے لئے کام کر رہی ہے۔ اس معاہدے کے صفحہ نمبر 6 پر افتخار درانی کے اسلام آباد کے گھر اور اس کمپنی کے امریکہ میں موجود دفتر کا پتہ موجود ہے۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اس معاہدے میں حکومت اور سیاسی جماعت یعنی PTI دونوں کی نمائندگی افتخار درانی ہی کر رہے ہیں حالانکہ افتخار درانی کو 24 فروری 2020 کو وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی کے عہدے سے باقاعدہ ڈی نوٹیفائی کیا جا چکا تھا جب کہ اس معاہدے پر ان کے دستخط مئی 2021 میں ثبت ہوئے ہیں۔ ان کے پاس اس وقت حکومتِ پاکستان کی نمائندگی کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہ تھا۔ یہ اختیار وزیرِ خارجہ یا متعلقہ سفیر کا ہے۔
فینٹن کمپنی کے ساتھ بھی پی ٹی آئی تین معاہدے کر چکی ہے۔ پہلا معاہدہ جون 2021 میں کیا گیا جو کہ پاکستان کی طرف سے کونسل آن پاکستان ریلیشنز نے کیا۔ یہ ہیوسٹن میں واقع ایک کمپنی ہے جو محمد اشرف قاضی، عادل جمال اور اقبال عبداللہ نے بنائی تھی اور انہوں نے فینٹن کے ساتھ معاہدہ پاکستان کی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے کیا۔ یہ معاہدہ بھی چھ ماہ کا تھا اور اس کی رقم بھی 25 ہزار ڈالر ماہانہ تھی۔
اس کے بعد اسی کمپنی کے ساتھ مارچ 2022 میں ایک اور معاہدہ کیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی وقت تھا کہ جب عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آ چکی تھی اور وہ امریکی انتظامیہ کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ اس معاہدے پر 21 مارچ کی تاریخ درج ہے اور اس پر دستخط کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے وہی سابق سفیر اسد مجید ہیں جنہوں نے ڈانلڈ لو سے ہونے والی گفتگو کا احوال بذریعہ بدنامِ زمانہ مراسلہ پاکستان بھیجا تھا۔ یہاں پتہ بھی پاکستان ایمبیسی کا دیا گیا ہے۔
اس معاہدے کے ختم ہونے سے پہلے ہی پاکستان تحریکِ انصاف نے اب اسی کمپنی سے ایک اور معاہدہ کر لیا ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ پچھلے چھ ماہ اس کمپنی کو پیسے کس مد سے ادا کیے گئے اور اس دوران کی جانے والی لابنگ کس مقصد کے لئے ہو رہی تھی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ لابنگ PTI کی ہو رہی تھی اور پیسہ حکومتِ پاکستان کے خزانے سے ادا ہو رہا تھا؟ یہ بات تشویش طلب ہے۔ اس معاہدے پر دستخط یکم اگست کو ہوئے ہیں اور یہ 21 اگست کے بعد سے نافذ العمل ہوگا۔ لگتا یہی ہے کہ پچھلے معاہدے کو ہی توسیع دے دی گئی ہے۔