انہوں نے پارٹی کے نظریات و فکر کو استدلال کی قوت کے ساتھ پیش کیا۔ انہوں نے جمہوری عوامی حکومت کا نقشہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں عوامی راج قائم کر کے کٹھ پتلیوں کو ختم کرنا ہو گا، پاکستان کا ہر شہری اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ ہمیں کوئی سلیکٹڈ یا سلیکٹر قبول نہیں، ہمارے لئے صرف عوام کی مرضی چل سکتی ہے نہ کہ کسی ایمپائر کی انگلی۔
بلاول نے پاکستان کی بدترین معاشی صورتحال اور عوام کی مشکلات پر بات کرتے ہوئے حکومتی بجٹ کو پی ٹی آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیا، انہوں نے کہا کہ معیشت عوام کی نہیں پی ٹی آئی ایم ایف کی مرضی سے سلیکٹڈ اور سلیکٹرز کے مفادات میں چل رہی ہے، جب سلیکٹڈ کو اقتدارمیں لایا جاتا ہے تو پھر کچھ عوام کی مرضی سے نہیں ہوتا بلکہ سلیکٹرز کی مرضی سے ہوتا ہے۔
تحریک انصاف کے جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے دعووں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک کروڑ گھر اور 50 لاکھ نوکریاں دینے والے برسرِروزگار ملازمین سے روزگار اور تجاوزات کے نام پر لوگوں کے سروں سے چھت چھین رہے ہیں، نوجوانوں کو روزگار نہ دیکر انکا معاشی قتل کیا جا رہا ہے۔ پنشنرز کی پنشن میں اضافہ اور زمینداروں کو سبسڈی نہ دے کر ان کا بھی معاشی قتل کیا جا رہا ہے ٹیکسز کے طوفان میں دکانداروں کو دھکیل دیا گیا ہے۔ معیشت عوام کی نہیں پی ٹی آئی ایم ایف کی مرضی سے سلیکٹڈ اور سلیکٹرز کے مفادات میں چل رہی ہے جب سلیکٹڈ کو اقتدارمیں لایا جاتا ہے تو پھر کچھ عوام کی مرضی سے نہیں ہوتا بلکہ سلیکٹرز کی مرضی سے ہوتا ہے، ہمارے طور میں بھی آئی ایس پی جیسا انقلابی پروگرام شروع کیا گیا جس پر اب حکمرانوں نے کٹ لگا دیا ہے۔ سلیکٹڈ وزیراعظم جن افراد کو 20 سال سے چور اور ڈاکو کہہ رہا تھا، انکو نوازنے کیلئے ٹیکس ایمسنٹی دیتا ہے مگر چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کیلئے کوئی ٹیکس ایمنسٹی نہیں۔
راولپنڈی جہاں تین وزیراعظموں کو قتل کیا گیا، جس سے وفاق کا ڈھانچہ کمزور ہوا، اس قتل گاہ پر بات کرتے ہوئے چئیرمین بلاول نے کہا کہ کارکن پوچھتے ہیں کہ پنڈی میں ایسا کیا ہے کہ بھٹو اور بی بی کو وہاں شہید کیا گیا اور ہماری تیسری نسل کا ٹرائل بھی پنڈی میں ہو رہا ہے ہم واضح کرناچاہتے ہیں کہ ہم اپنے اوپر تو ظلم برداشت کرنے کیلئے تیارہیں مگر اس ملک کے غریب اور مظلوم عوام پر مزید ظلم برداشت نہیں کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بلوچستان کے وفادار جیالوں کے پاس تاریخی پیغام لیکر آیا ہوں کہ اس سال 27 دسمبر کو شہید بے نظیر بھٹو کی برسی لیاقت باغ راولپنڈی میں منائیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی تیسری نسل کا اعلان ہے کہ پنڈی ہم پھر سے آ رہے ہیں۔
انہوں نے پارٹی کے چار بنیادی اصول دہراتے ہوئے کہا کہ ان چاروں اصولوں پر شہید ذوالفقار علی نے پاکستان کو1973 کا آئین، پاکستان کو متفقہ اسلامی، جمہوری، پارلیمانی نظام دیا، شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بہت سے انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے سرداری، جاگیرداری نظام اور بڑی بڑی طاقتوں کو ختم کیا۔ انہوں نے عوام کو آواز، کسان کو زمین، مزدور کو انکا حق دلوایا اور پاکستانی کے جمہوری، انسانی، معاشی حقوق کا تحفظ کیا، انکا فلسفہ تھا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، انہوں نے سیاست، معیشت، حکومت کو عوام کی طاقت سے چلایا اور دنیا میں پاکستان کا وقارعوام کی طاقت سے بلند کیا۔ ملک میں عوامی راج کچھ قوتوں کو قبول نہیں تھا جس کی وجہ سے شہید ذوالفقارعلی بھٹو کو پنڈی میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
انہوں نے جمہوریت، عوام کے بنیادی انسانی حقوق اور وفاقیت کے لئے پارٹی کی قربانیوں اور شہادتوں کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے نظریے اور عوام کے حقوق سے دستبردار نہیں ہوئے۔ شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے یہ واضح طور پر کہا تھا کہ میں ایک ڈکٹیٹر کے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا لیکن تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہوں گا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی میں اور شہادت کے بعد بھی قائد عوام رہے جب اس ملک میں آمرانہ دور شروع ہوا تو یہاں پر حکومت، سیاست اور معیشت سب کچھ آمر نے اپنی مرضی سے چلانا شروع کیا۔ معیشت میں بھی جب آمر کی طاقت شامل ہوئی تو پھرشہید بے نظیر بھٹو نے اس آمرکا ڈٹ کرمقابلہ کیا۔ شہید بے نظیربھٹو نے شہید بھٹو کی سوچ اور نظریے پر چلتے ہوئے دو آمروں کا مقابلہ کیا اور دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرعوام کی سیاست کی عوام کی۔ طاقت سے سیاست اور حکومت کی اور انہوں نے ملک کی معیشت کو عوام کی مرضی سے انکے فائدے کے لئے چلایا شہید بے نظیر بھٹو پوری زندگی جدوجہد کرتی رہیں اور وہ بھی پنڈی میں شہید ہوئیں۔ اپنی شہادت سے کچھ دن قبل بی بی شہید نے کوئٹہ کا دورہ کیا تھااور 27 دسمبر کو پنڈی میں شہید ہوئیں۔
پیپلزپارٹی کے دو سربراہوں نے شہادت تو قبول کی لیکن کسی آمر کی آمریت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ جمہوریت اور جمہور کی حکمرانی کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ جب شہید بے نظیربھٹو پنڈی میں شہید ہوئیں تو اس ظلم کے باوجود پارٹی قیادت نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھا، ہم نے شہید بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد انکے اصولوں کے مطابق سیاست کی اورعوام کی طاقت سے جمہوریت، سیاست اور معیشت چلائی 18ویں ترمیم دیکر شہید بھٹو کا آئین اورملک میں حقیقی جمہوریت بحال کرکے صوبوں کو مکمل اختیارات دیئے۔
انہوں نے پیپلز پارٹی کی سابق حکومت جس کو لاتعداد قومی اور بین الاقوامی چیلینجز کا سامنا تھا کی عوامی خدمات، جمہوری و وفاقی مضبوطی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات اور بالحضوص بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے کیلئے معاشی ترقی وخوشحالی کے منصوبوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دورِ اقتدار میں پیپلزانکم سپورٹ پروگرام دیکر معاشی طورپر کمزور خواتین کو با اختیار بنایا۔ بلوچستان کے عوام کو انکا حق دیا۔ آغاز حقوق بلوچستان پیکج اسکی واضح مثال ہے صوبے کی پسماندگی کے خاتمے کیلئے پروگرام لیکر آئے مگر این ایف سی اور18ویں ترمیم پر اب عمل نہیں ہو رہا۔
پیپلز پارٹی نے ملک کو سی پیک جیسا انقلابی منصوبہ دیا۔ بلوچستان اور گوادر کے عوام کو اس سے زیادہ فائدہ ملنا تھا۔ یہ آصف علی زرداری کا وژن تھا کہ ملک کے پسماندہ علاقوں کو فاٹا سے لیکر گوادر تک ترقی دی جائے مگر افسوس ہماری حکومت کے بعد سی پیک کا روٹ تبدیل کر دیا گیا، جن منصوبوں کا آغاز خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ہونا تھا انکا رخ پنجاب کی طرف موڑ دیا گیا۔ نہ اہل کٹھ پتلی حکمران بلوچستان کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتے یہ صرف پیپلز پارٹی ہی ہے جس کے ہر دور میں پورے ملک اور بلوچستان کے عوام کو فائدہ ملا۔
پیپلز پارٹی نے سندھ میں تھرکول پاور شروع کرکے مقامی لوگوں کو روزگار دیا جس کی بدولت آج تھرپارکر کی خواتین ڈرائیورز سے لیکر سول انجینئرنگ تک کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
انہوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ ہم نے بلوچستان کے وسائل پر جو یقینی طور پرمعدنی وسائل سے مالا مال ہے کا اختیار یہاں کے عوام کو دینے کے لئے اقدامات کئے بدقسمتی سے آج ہمیں یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا۔
پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں مہنگائی کاخاتمہ کیا۔ عالمی سطح پر مسائل کے باوجود عوام کے مفادات کا تحفظ کیا اور آئی ایم ایف سے معاہدے بھی عوام کے مفادات میں کئے۔ سابق صدرآصف علی زرداری نے پنشن میں 100اور تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فیصداضافہ کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والی فوج کے سپاہیوں کی تنخواہوں میں 175 فیصد اضافہ کیا۔ ہم نے بزرگ پنشنروں اور سرکاری ملازمین کے مفادات کا تحفظ کیا، یہ ایک عوامی حکومت کرسکتی ہے اوریہی ایک عوامی اور سلیکٹڈ حکومت میں فرق ہے۔ سلیکٹڈ کا کام صرف سلیکٹرز کا خیال رکھنا ہے جبکہ عوامی حکومت عوام کا خیال رکھتی ہے۔
انہوں نے پاکستان میں جمہوریت کے بحران، اور موجودہ کنٹرولڈ سیاست، سیاسی انجئینرنگ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے عوام کی طاقت چھینی جا رہی ہے اور سب کچھ سلیکٹڈ سلیکٹرز کے پاس جا رہا ہے اورسب کچھ سلیکٹرز کے مفادات میں ہو رہا ہے۔ سیاست اور جمہوریت عوام کی بجائے سلیکٹڈ اور سلیکٹرز کے مفادات میں ہے اور عوام کی نمائندگی بھی وہ کررہے ہیں عوام کے جمہوری حقوق پرحملے اورانتخابات میں باربار دھاندلی ہورہی ہے اٹھارویں ترمیم پر سلیکٹڈ حکمرانوں کے ذریعے حملے کئے اور صوبوں کے وسائل چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے یہ وہ جمہوریت نہیں جس کیلئے شہید بھٹو اور شہید بی بی نے شہادت دی۔
انہوں نے حکومتی میڈیا سنسرشپ اور کنٹرولڈ صحافت کی پالیسی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ جب انسانی حقوق پر حملے ہوتے ہیں تو پھر ہمیں سوال کرنے کا حق حاصل ہے ملک میں سیاست اور صحافت کچھ آزاد نہیں میڈیا پر کالعدم جماعتوں ”را“ کے ایجنٹ کلبھوشن ،بھارتی گرفتارپائلٹ کے انٹرویو تو چل سکتے ہیں مگر سابق صدر آصف زرداری کا انٹرویو نہیں چل سکتایہ کیسی آزادی ہے۔
انہوں نے بلوچستان کے اہم ترین مسئلے مسنگ پرسنز جس سے صوبے میں بےچینی اور عوام میں ریاست سے بیگانگی کے جذبات مسلسل بڑھ رہے پر بھی ریاستی پالیسیوں پر شدید تنقید کی، اُن کا کہنا تھا کہ عوام ہوں سیاسی کارکن ،سول سوسائٹی کے نمائندے چاہے کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتے ہوںلاپتہ ہورہے ہیںجس ملک میں لوگ لاپتہ ہوجاتے ہوں اور پھر قصور بھی انکا قراردیا جائے اور ریاست کی ذمہ داری نہ ہویہ کیسی آزادی ہے۔
مضبوط وفاقیت، صوبائی خوداختیاری اور وسائل پر حقوق پر انہوں نے پارٹی کا موقف یوں پیش کیا کہ اسلام آباد میں بیٹھے سلیکٹڈ حکمران صوبوں کے وسائل دینے سے انکار اور معاملات میں دخل اندازی کررہے ہیں اور یہی سلیکٹڈ اورنااہل ،نالائق حکمران اپنا بوجھ عوام پر ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بات بڑی واضح اور دبنگ انداز میں بتا دیا کہ پی پی پی کو نہ دبایا جاسکتا ہے اور نہ جیالوں کو ڈرایا جاسکتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ آج بھی سمجھتے ہیں کہ پی پی پی کو دبایا جاسکتا ہے اور جیالوں کو ڈرایا جا سکتا ہے، یہ انکی بھول ہے، ہم نے ضیاء اور مشرف آمریت کا مقابلہ کیا یہ کٹھ پتلی تو جیالوں کیلئے کچھ بھی نہیں۔ شہید بھٹو کے نواسے اور بی بی کے بیٹے کو دھمکانا انکی بھول ہے، یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر ظلم کر کے ہماری زبانیں بند کراسکتے ہیں تو وہ سن لیں یہ پیپلز پارٹی کی روایت نہیں کہ خاموش رہے، آج بھی سندھ کے مقدمات پنڈی میں چل رہے ہیں، سابق صدرآصف علی زرداری کے مقدمات سندھ کی بجائے پنڈی میں چل رہے ہیں انہیں چھ ماہ پنڈی میں رکھا گیا اور صحت کی سہولیات بھی فراہم نہیں کی گئیں۔ انہیں چھ ماہ بلاجوازجیل میں رکھنے اور سہولتیں نہ دینے سے اگرچہ انکی صحت خراب ہو گئی مگر وہ آج بھی اپنے نظریات پر کھڑے ہیں، آج بھی انکا ٹرائل پنڈی میں چل رہا ہے جس کا مقصدہم پر دباو ڈالنا ہے۔
نیب نیازی گٹھ جوڑ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ امتیازی احتساب پر ان کا شکوہ تھا کہ کارکن ہم سے پوچھتے ہیں کہ ایک سزایافتہ شخص کو ضمانت مل سکتی ہے تو پھر آصف زرداری کی بہن کو ضمانت کیوں نہیں مل سکتی کارکن پوچھتے ہیں کہ پنڈی میں ایسا کیا ہے کہ بھٹو اور بی بی کو وہاں شہید کیاگیااور ہماری تیسری نسل کا ٹرائل بھی پنڈی میں ہو رہا ہے۔