پاکستان کے نامور بیوروکریٹ حسن ظہیر نے اپنی کتاب The Separation of East Pakistan کے باب نمبر 10 میں ہماری تاریخ کے اس اندوہناک موڑ کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ حسن ظہیر کے بقول مغربی پاکستان میں کوئی بڑا عوامی مظاہرہ دیکھنے میں نہں آیا اور نہ ہی قومی مفاہمت کا کوئی مطالبہ کیا۔ حسن ظہیر لکھتے ہیں کہ 1971 کے المیے اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد یحییٰ خان اور ان کے قریبی رفقا اور جرنیلوں کو برا بھلا تو خوب کہا گیا لیکن یہ تاریخی امر بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ مغربی پاکستان میں عمومی طور پر یحییٰ خان کے فیصلوں کی مکمل تائید اور بنگال میں لیے جانے والے اقدامات کے لیئے بھرپور حمایت شامل تھی اور یہ حمایت عوام اور اشرافیہ دونوں میں بدرجہ اتم موجود تھی۔
سول اور فوجی بیوروکریسی، بڑا کاروباری طبقہ، شہری مڈل کلاس، عوامی نمائندے حتیٰ کہ آزاد پریس نے بھی یحییٰ خان کے فوجی ایکشن کو سراہا۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ میں فیصلہ ساز حلقوں کا تعلق پنجاب سے تھا اور خصوصاً لاہور اور کراچی کا قومی امور پر گہرا اثر تھا۔ یہ سب حلقے عوامی لیگ اور اس کےاس بیانیے سے خائف تھے جو کہ پاکستان میں مروجہ معاشی اور سیاسی نظام کو چیلنج کر رہا تھا۔ جنرل یحییٰ خان بنگالی مطالبات صرف روایتی ریاستی ڈھانچے کے اندر ہی قبول کر سکتے تھے، وہ ڈھانچہ جو مغربی پاکستان کے مفادات کا بھرپور تحفظ کر رہا تھا۔ لیکن مشرقی بنگال میں ابھرنے والی نئی مڈل کلاس کے لئے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان روایتی طاقت کی تقسیم قابلِ قبول نہیں تھی۔ مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی غلطی بنگالی قوم پرستی کی قوت کو نہ سمجھنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ افواجِ پاکستان امنِ عامہ بحال کر کے پرانا نظام پھر سے چلانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ 26 مارچ کو جب ذوالفقار علی بھٹو ڈھاکہ سے لوٹے تو ان کے مشہور الفاظ آج بھی دہرائے جاتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے، پاکستان آخر کار بچ گیا ہے۔ دراصل مغربی پاکستان نے آرمی ایکشن پر جو سکھ کا سانس لیا تھا، وہ اس کو الفاظ دے رہے تھے۔ ان کے بیان میں لفظ ’آخر کار‘ کا استعمال آپریشن کے ان کے مطابق دیر سے شروع ہونے کے خیال کا عندیہ تھا۔ اگرچہ کہ اس طرح کے الفاظ کا استعمال نامناسب تھا لیکن اسے بہت پسند کیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ بھٹو صاحب کے سوشلسٹ خیالات بھی خطرناک تھے اور مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ان کے ایجنڈے سے بھی زیادہ خوش نہ تھی۔
صدرِ پاکستان نے افواج کو یہ ہدف دیا تھا کہ وہ مرکزی حکومت کی رٹ کو بنگال میں بحال کریں۔ لیکن مرکزی کمانڈ نے فوجی دستوں کو انسانی جان کے تقدس کو پامال نہ کرنے کے حوالے سے کوئی ہدایات نہیں دیں۔ اس قسم کے فیصلوں کے فیلڈ کمانڈرز کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔ افسوس تو یہ ہے کہ جنگ کے مروجہ اصول جن میں نہتے لوگوں، خواتین اور بچوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا، ایسے اصولوں کو بھی ایک نااہل قیادت نے پسِ پشت ڈال دیا۔ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ مکتی باہنی کی طرف سے کیے جانے والے مظالم بھی افسوسناک تھے لیکن باغی لشکر کسی ضابطہ اخلاق کے پابند نہیں ہوتے جب کہ افواج کے لئے اس ضابطہ اخلاق کی پیروی کرنا لازم ہوتا ہے۔
اپریل میں مجھے کئی ایسے واقعات کا علم ہوا جن میں بہت سے افسران نفسیاتی ہیجان کا شکار ہوچکے تھے کیونکہ انہیں اس خانہ جنگی نے سویلینز کے خلاف ایکشن لینے پر مجبور کیا اور اپنے ہی سابق کولیگز سے جنگ بھی لڑنا پڑی۔ ایک افسر تو ایسے تھے جو 1965 کی پاک بھارت جنگ کے ہیرو تھے لیکن انہوں نے جب ان حالات میں لڑنے سے انکار کیا تو ان کا کورٹ مارشل کر دیا گیا۔ لیکن ان اکا دکا کیسز کے علاوہ مغربی پاکستان کے فوجی افسروں اور جوانوں نے یہ جنگ ایک قومی فریضہ سمجھ کر لڑی۔ دیکھا جائے تو افسروں کا مشرقی پاکستان میں لڑنا اور ادارے کی سوچ کا بنیادی محور بنگالی قوم پرستی کا مستقل حل نکالنا تھا۔ درحقیقت جنرل یحییٰ کا سیاسی بحران کو نظر انداز کرنا اور مشرقی کمان کے سربراہ کے غیر ذمہ داران اور نازیبا بیانات کا سول اور فوجی حلقوں میں خوب چرچا رہا۔ لیکن اس سب نے پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ثبت کر دیا۔
مارچ کے مہینے میں ہی مغربی پاکستان کے سول سرونٹس نے اسلام آباد اور دیگر شہروں میں فوجی ایکشن کی مکمل حمایت کی کیونکہ ان کے خیال میں امن بحال کرنے کا یہی ایک طریقہ باقی رہ گیا تھا۔ لیکن اس حمایت کے باوجود بہت سے سول افسران سیاسی مفاہمت کے حامی تھے کیونکہ افواج اپنی خواہشوں کو زبردستی منوانے میں ناکام رہیں۔ چند ایک سینیئر افسران نے فوجی پالیسیوں پر تنقید بھی کی اور اپنے تئیں کوشش جاری رکھی کہ وہ اس وقت کی قیادت کو مفاہمت پر آمادہ کریں۔ لیکن یہ ہو نہ سکا۔
عوامی نمائندے
مغربی پاکستان کے تقریباً تمام منتخب سیاستدان بھی آپریشن کے حامی تھے اور اکثر نے تو اس کی کھل کر حمایت کی۔ یہ سب ہندوستان کی مداخلت کی مذمت کرتے رہے لیکن بہت سوں کو سیاسی بحران سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ ایک منتخب لیڈر مولانا کوثر نیازی نے تو یہ تک کہا کہ یحییٰ تو فوجی صدر نہیں بلکہ ایک عوامی اور مقبول صدر ہیں۔ عبدالقیوم خان اور ممتاز دولتانہ نے یحییٰ سے درخواست کی کہ وہ اپنا آئین خود ہی بنا لیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی فوجی ایکشن کی مکمل تائید کی۔ ان سب نے قومی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا لیکن مفاہمت اور مصالحت کی بات کم ہی کی۔ بھٹو اس بات کے خواہاں تھے کہ اقتدار ان کے حوالے کر دیا جائے تاکہ یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ منتخب اور غیر منتخب اسلام پسند دائیں بازو کے لیڈران بشمول نورالامین، طفیل محمد اور قیوم خان نے جنرل یحییٰ سے درخواست کی کہ وہ اس وقت تک اقتدار سویلین حکومت کے حوالے نہ کریں جب تک حالات ٹھیک نہ ہو جائیں۔ بہت سے سیاستدانوں کا خیال تھا کہ جو نشستیں عوامی لیگ کو نااہل قرار دینے سے خالی ہوں گی ان پر ان کا قبضہ آسان ہو جائے گا۔
سرمایہ دار طبقوں کی خاموش تائید
لاہور اور کراچی کے سرمایہ دار طبقات انتہائی طاقتور تھے اور ان کے مفادات بھی مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اقتدار اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے جڑے تھے۔ اس وقت کی پریس تین بڑے نجی اخباروں پر مشتمل تھی، جن میں نوائے وقت، جنگ اور ڈان شامل تھے۔ ان تین اخبارات کے علاوہ تقریباً سارے کا سارا میڈیا ریاست کے کنٹرول میں تھا۔ ان اخبارات کا اس زمانے میں بھی بہت اثر تھا اور یہ فوجی حکومت پر بھی اپنا اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ لیکن فوجی ایکشن کے بعد ان سب نے بھی ان اقدامات کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی۔ یہ اخبارات بھی سرکاری پراپیگنڈے کو ہی آگے بڑھاتے رہے جو کہ ان کے پیشہ ورانہ فرائض کے بالکل برعکس تھا۔ بعض اوقات تو وہ یحییٰ خان کی حکومت سے بھی زیادہ جارحانہ انداز اختیار کرتے رہے۔ یہ بات سچ ہے کہ فوجی حکومت ان اخبارات پر اثر انداز ہوئی ہوگی لیکن ان جرائد کے پاس کوئی ایسی وجہ نہیں تھی جس سے وہ جنگ کے طبل بجاتے رہیں اور حکومت کی توصیف میں اداریے پر اداریے چھاپتے رہیں۔ ان کا کام تھا کہ وہ اس فوجی ایکشن کے عزائم اور اس کے نقصانات پر سوال اٹھائیں۔ مارشل لا حکومت نے یقیناً خبروں کی اشاعت کو روکا ہوگا لیکن انہوں نے ہیڈ لائنز اور ادارتی صفحوں کے مواد پر کوئی واضح قدغنیں عائد نہیں کی تھیں۔
اپریل تا دسمبر 1971 کے اخبارات پاکستانی میڈیا کی ایک مایوس کن تصویر پیش کرتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے بحران کی بابت ان کے خیالات اور ان کی پیشکش کچھ یوں تھی:
1) ایک ہی دن میں چھپے ہوئے اخبار میں حالات پر مکمل قابو صفحہ اول پر دکھایا جاتا اور اسی شمارے میں افواجِ پاکستان کی فتح اور باغیوں کو کچلنے کی کہانی بھی لکھی ہوتی تھی۔ بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کو توڑ مروڑ کر چھاپا جاتا تھا۔
2) اخبارات کے اداریے خوشامد اور شاونزم کا امتزاج ہوا کرتے تھے، مثلاً روزنامہ ڈان کے اپریل 4 کے اداریے نے صدر یحییٰ کو ایک دانا فوجی کمانڈر قرار دیا جس پر قوم کو اعتماد تھا کہ وہ بیرونی اور اندرونی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے۔ نوائے وقت نے اپنے 14 اپریل کو چھپنے والے اداریے میں وہ گھسی پٹی باتیں دہرائیں جن میں ہندو سازش، اسلام دشمن طاقتیں اور بنگالی زبان کا ذکر کیا اور ان سب کو آہنی طاقت سے کچلنے کا مشورہ دیا۔
1971 کے بحران کے سیاسی پہلو کا خال خال ہی ذکر دکھائی دیا اور سارے کا سارا فوکس بھارتی مداخلت پر تھا۔ اس طرح کی کوریج نے عوام کو بنگالیوں کے حقیقی مسائل کے حوالے سے اندھیرے میں رکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان کی مداخلت نے حالات کو مشکل بنا دیا تھا لیکن یہ ایک ثانوی مسئلہ تھا۔ اس امر نے ایک اور تضاد کو جنم دیا کہ پہلے پہل تو اس تمام مسئلے کو بیرونی سازش قرار دیا گیا لیکن اپریل اور مئی کے دوران بار بار یہ کہا گیا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اگلے چند مہینوں میں پریس کی کوریج اور بھی سکڑ گئی اور اس کا بنیادی موضوع یحییٰ کی مخلصانہ سیاسی کاوشوں اور بیرونی سازشوں پر رہا۔
ہم لوگ جو مشرقی پاکستان میں سرکاری فرائض سرانجام دے رہے تھے، جب مغربی پاکستان میں آتے تو وہاں کے پریس اور لوگوں کو بنگال کے حالات سے بے نیاز پاتے اور سچ تو یہ ہے کہ ان کو کوئی زیادہ پروا بھی نہ تھی۔
3) کسی اخبار نے فوجی ایکشن کے اغراض و مقاصد پر سوال نہ اٹھائے۔ دائیں بازو کے میڈیا نے جنگ کے طبل بجا رکھے تھے اور وہ کسی بھی قسم کے آئینی عمل کے حق میں نہ تھے۔ چند ایک مدیران اور رپورٹرز مشرقی پاکستان کا دورہ کرتے اور وہاں کے حالات دیکھتے لیکن واپس آ کر وہ اپنے ادارتی تجزیے اور تبصروں میں کوئی تبدیلی نہ لاتے۔ پریس کے لئے یہود و ہنود کی سازشیں 1971 کے بحران کی ذمہ دار تھیں اور اس کے حل کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال انتہائی ضروری تھا۔
4) سنسرشپ اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی صرف مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں پر تھی کیونکہ مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کے بیانات فراوانی سے چھپ رہے تھے۔ بنگالیوں کے مؤقف کا جان بوجھ کر بلیک آؤٹ کیا جا رہا تھا جس کی وجہ سے عوام کو غیر جانبدار تجزیہ میسر نہ آ رہا تھا۔ باقی تمام اداروں کی طرح پاکستان کا پریس بھی ناکام تھا۔
حسن ظہیر آخر میں لکھتے ہیں کہ مغربی پاکستان کے مقتدر طبقات اور حلقے جنرل یحییٰ کی غلط پالیسیوں کے مکمل ہمنوا بن چکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ چند ہی مہینوں میں پاکستان تباہی کی طرف بڑھا اور دولخت ہو گیا۔ ان سب کا مؤقف تھا کہ فوج کو اس وقت تک اقتدار میں رہنا چاہیے جب تک وہ سرکش بنگالی قوم پرستی کو کچل نہ دے۔