ان دنوں ٹی ٹی پی نئی نئی بنی تھی۔ جب بھی ان کی طرف سے کوئی بڑی کارروائی ہوتی تو سب سے پہلے مجھ سے یا میرے ساتھی سے رابط کر کے ذمہ داری قبول کی جاتی تھی۔ ان دنوں میں برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی کے ساتھ وابستہ تھا۔ مولوی عمر کا یہ معمول تھا کہ جب کوئی اہم پالیسی بیان جاری کرتا یا تنظیم کوئی حملہ کرتی تو پہلی ٹیلی فون کال بی بی سی کو کر دیا کرتے تھے۔ لیکن یہاں یہ بات اہم ہے کہ وہ پہلی کال بی بی سی کو کیوں کرتے تھے؟ اس کی بڑی دلچسپ کہانی ہے جو میں آگے چل کر بتاؤں گا۔
وہ ہمیں فون کرتے اور ادھر ہم فوراً خبر بریک کر دیتے اور اس طرح ان دعوؤں میں کبھی بڑی خبر بھی آ جاتی تھی۔ جب ہم نے طالبان کے حوالے سے کئی اس طرح کی خبریں بریک کیں تو یہاں پشاور میں الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ کچھ صحافی دوست ہمارے خلاف ہو گئے اور طالبان ترجمان کو ہمارے خلاف الٹی سیدھی باتیں بتانے لگے۔
جب انہیں ہمارے خلاف کچھ نہ ملا تو حسد کی آگ میں جلنے والے ہمارے ساتھیوں نے طالبان ترجمان کو یہ کہنا شروع کیا کہ بی بی سی تو ’یہودیوں’ کا ادارہ ہے، ان کے رپوٹرز بھی سب 'جاسوس' ہیں۔ آپ انہیں سب سے پہلے کیوں خبر دیتے ہیں؟ آپ پہلی کال ہمیں کر دیا کریں۔ ہم ان سے بڑھ کر آپ کی خبروں کوخوب فلیش کر کے چلائیں گے۔
پھر ایک دن مولوی عمر نے مجھے بتا ہی دیا کہ پشاور میں آپ کے دوست اس بات پر سخت ناراض ہیں کہ وہ پہلی کال بی بی سی کو کیوں کرتے ہیں۔ ساتھ میں انہوں نے یہ انکشاف بھی کر دیا کہ طالبان شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تنظیم کی طرف سے کوئی بیان جاری ہوگا تو سب سے پہلے ٹیلی فون کال بی بی سی کو کر کے خبر دی جائے گی۔ اس وقت تک یہ مجھے بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ فیصلہ طالبان کے شوریٰ اجلاس میں کیا گیا ہے۔ مولوی عمر نے بھی کہا کہ ان کی طرف سے ان صحافیوں پر یہ بھی واضح کیا گیا کہ تنظیم کی طرف سے تمام میڈیا کے نمائندوں پر نظر رکھی جا رہی ہے اور انہیں یہ بھی اندازہ بھی ہے کہ کون کس کے لئے کام کرتا ہے۔
شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بی بی سی جیسے دنیا بھر میں آزاد صحافت کے لئے شہرت رکھتا ہے اور ان کے رپورٹرز کو بھی آزاد صحافت کی تربیت دی جاتی ہے، اسی وجہ سے طالبان کو یقین تھا کہ کبھی ان کی خبروں میں کانٹ چھانٹ نہیں کی جائے گی۔ ان دنوں میڈیا پر اس حد تک پابندیاں عائد نہیں تھیں جیسے آج کل ہیں۔ ہم طالبان کمانڈرز کے انٹرویو کرنے قبائلی علاقوں میں جایا کرتے تھے لیکن اس وقت ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور نہ اس طرح کی غیر یقینی کیفیت جیسے آج کل ہے جب کہ اس وقت سنسرشپ کی شرح بھی بہتر تھی۔
پھر شاید وہ ٹیلی فون کال بھی سب سے پہلے مجھے ہی آئی جسے میں ساری زندگی فراموش نہیں کر سکوں گا کیونکہ جب بھی 16 دسمبر کا دن آتا ہے تو سارا منظر نامہ میرے سامنے فلم کی طرح چلنے لگتا ہے۔ لیکن یہ کال مولوی عمر نے نہیں کی بلکہ یہ ایک اور طالبان کمانڈر نے کی تھی جسے دنیا اس وقت خلیفہ عمر منصور کے نام سے جانتی تھی۔
یہ 16 دسمبر 2014 کی بدقمست صبح اور غالباً 9 بجے کا وقت تھا۔ میرے موبائل فون پر افغانستان کے نمبر سے ایک فون کال آئی۔ اندازہ تو مجھے ہو گیا تھا کہ یہ کال کس کی ہو سکتی ہے کیونکہ ہمیں اکثراوقات طالبان کمانڈروں کے فون آیا کرتے تھے۔ لیکن مجھ سمیت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ چند گھنٹوں کے بعد پشاور میں کس قسم کے خون کے فوارے ابلنے والے ہیں۔
جب میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے خلیفہ عمر منصور بول رہے تھے۔ خلیفہ عمر منصور عرف نرے (دبلے) تحریک طالبان پاکستان پشاور اور درہ آدم خیل شاخوں کے سربراہ تھے۔ وہ بعد میں 2017 میں افغانستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
سلام دعا کے بعد انہوں نے کہا کہ 'ورسک روڈ پر ہمارے کچھ حملہ آور کارروائی کے لئے ایک سکول میں داخل ہو گئے ہیں۔ آپ میری دوسری کال کا انتظار کریں'۔ یہ بات کرتے ہی اس نے فون بند کر دیا۔ میں نے ٹی وی کا ریموٹ اٹھایا اور چینلز تبدیل کرنے لگا لیکن مجھے کسی چینل پر کوئی اطلاع نظر نہیں آئی۔ میں مسلسل ٹی وی چینلز تبدیل کرتا رہا، قریب ایک گھنٹے کے بعد مجھے ایک ٹی وی چینل پر صرف اتنی خبر دکھائی دی کہ ورسک روڈ پر پولیس اور کچھ جرائم پیشہ افراد کے درمیان فائرنگ ہوئی ہے، مزید کوئی تفصیل نہیں تھی۔
دن 12 بجے کے قریب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ پشاور کے علاقے ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک سکول میں چند مسلح افراد نے گھس کر بچوں پر فائرنگ کر دی ہے جب کہ اس دوران کمانڈوز کے دستے بھی وہاں پہنچ گئے ہیں اور مقابلہ جاری ہے۔ لیکن اس سے زیادہ معلومات نہیں تھیں اور نہ اس وقت تک یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ سکول کے اندر کیا ہو رہا ہے اور ہلاکتیں کتنی ہوئی ہیں۔
اس دوران خلفیہ عمر منصور نے غالباً دو مرتبہ مجھے پھر کال کی اور مسلسل حملے کی تفصیلات بتاتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ سکول کے اندر ان کے خودکش حملہ آوار موجود ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو ان کا موبائل نمبر بھیج سکتا ہوں۔ انہوں نے مجھے وہ نمبر لکھوا دیا لیکن میں نے کال نہیں کی۔ تھوڑی دیر کے بعد موبائل فون پھر سے بجنے لگا۔ سکرین دیکھی تو وہی نمبر تھا جو خلفیہ عمر منصور نے دیا تھا لیکن اٹھانے کی جرات نہیں کی۔
اب میں صحافی ہونے کے ناطے گومگو اور شش و پنج کی کیفیت میں تھا۔ تجسس بھی تھا لیکن ساتھ ساتھ یہ اندیشہ بھی تھا کہ بات کروں گا تو نتائج بھی بھگتنے ہوں گے کیونکہ ہمارے سارے فون ٹیپ ہو رہے تھے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔
تھوڑی دیر کے بعد پھر اسی نمبر سے کال آئی لیکن اس مرتبہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے فون اٹھا لیا۔ حملہ آور سے پوچھا کہ اندر سکول میں کیا ہو رہا ہے تو اس نے پشتو میں کہا کہ 'ہم نے چالیس لاشوں کو گرا دیا ہے'۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ وہاں تو تمام طلبہ ہیں، ان کو کیوں مار رہے ہیں؟ وہ تو سب معصوم ہیں؟ تو اس پر حملہ آوار نے کہا کہ نہیں، یہاں پر فوج کا مرکز بھی ہے۔ میں نے زیادہ بات نہیں کی اور فون کاٹ دیا۔
مجھے اس وقت تک آرمی پبلک سکول کی لوکیشن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، نہ میں کبھی وہاں سے گزرا تھا۔ شام تک ٹی وی چینلز پر مختلف خبریں چلتی رہیں لیکن کسی کے پاس ہلاکتوں کے ضمن میں مصدقہ معلومات نہیں تھیں۔ شام کے وقت اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے لیڈی ریڈنگ اسپتال کا مختصر دورہ کیا اور جب باہر نکلے تو وہاں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے واقعے میں پہلی مرتبہ 80 طلبہ کی شہادت کی تصدیق کی۔ اس خبر کے بریک ہوتے ہی جیسے پوری دنیا میں ایک بھونچال آ گیا اور پھر چند ہی منٹ میں پشاور دنیا بھر میں فلیش ہونے لگا۔
آرمی پبلک سکول پر ہونے والا طالبان حملہ بلاشبہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس حملے کی وجہ سے پشاور کئی مہینوں تک خبروں میں رہا۔ اس واقعے نے جہاں 150 کے قریب ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں وہاں اس الم ناک سانحے نے سارے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ پشاور کے ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے زندگی کی گھڑی رک گئی ہے۔ ہر طرف ایک سوگ اور مایوسی کی کیفیت تھی۔ گھروں میں خواتین کا برا حال تھا۔ کئی دنوں تک ان کی آنکھیں خشک نہیں ہو پا رہی تھیں۔ خون میں لت پت معصوم طلبہ کی وہ تصویریں آج بھی یاد کرتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس سانحے کی وجہ سے کئی لوگ ٹراما کا شکار ہوئے۔ میں نے کنفلکٹ زون میں رہ کر قریب دس سال تک جنگ کے واقعات کی رپورٹنگ کی اور کئی مشکل مرحلوں سے گزرا لیکن اس طرح کا دلخراش کا واقعہ نہیں دیکھا تھا۔
اے پی ایس واقعہ کے چند دنوں کے بعد میری ایک انکوائری بھی ہوئی۔ مجھے پہلے ایک اہم حساس ادارے کے دفتر آنے کا کہا گیا لیکن عین وقت پر بتایا گیا کہ آپ وہاں نہ آئیں بلکہ ایک اور اہم نیم سرکاری مقام پر بلایا گیا۔ ادارے کے افسر اچھے انسان تھے۔ انہوں نے آتے ہی پہلے معذرت کی کہ ہم نے پہلے آپ کو اپنے دفتر بلانا چاہا لیکن پھر خیال کیا کہ ایسا نہ ہو آپ برا مان جائیں، لہٰذا ایک پبلک مقام پر آپ کے ساتھ ملاقات کا فیصلہ کیا۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور پھر سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے خودکش حملہ آوار کے بارے میں پوچھ گچھ شروع ہوئی۔ کس نمبر سے فون آیا تھا؟ کچھ اندازہ ہے کون تھا؟ اس کا لب و لہجہ کس علاقے کا تھا؟ آپ کو کیوں فون کیا، وغیرہ وغیرہ۔ میں نے کہا سر جو کچھ ہے، آپ کے سامنے ہے۔ آپ لوگوں نے بھی میری باتیں سنی ہوں گی۔ فون میں نے نہیں کیا تھا بلکہ اس نے کیا تھا۔ حالانکہ مجھے اس کا نمبر دیا گیا تھا لیکن میں نے پھر بھی پہل نہیں کی۔ پھر میری ان سے جو گفتگو ہوئی وہ بھی ملاحظ کی ہوگی۔ اس دوران چائے آئی، کچھ سر کا درد کم ہوا تو پھر گفتگو شروع ہوئی۔ ادارے کے افسر فرینڈلی انسان تھے۔ کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔ بلکہ دوستانہ ماحول میں گفتگو ہوتی رہی۔ ان کے ساتھ ایک جونیئر افسر بھی موجود تھے جو مسلسل نوٹس لے رہے تھے۔ ملاقات ختم ہوئی تو انہوں نے کہا کہ آپ کو ایک مرتبہ پھر آنے کی زحمت دیں گے لیکن پھر دوبارہ نہیں بلایا۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی ایکٹو لہر 2007 میں شروع ہوئی اور اے پی ایس واقعہ اس کی انتہا تھا۔ ہم نے اس تمام لہر کی نہ صرف رپورٹنگ کی بلکہ اس کے اثرات کو بھی برداشت کیا۔ اے پی ایس واقعے کے بعد ہمیں ہمارے ادارے کی طرف سے ان رپورٹرز کو لندن میں ٹراما کورسز بھی کرائے گئے جنہوں نے اس سانحے کو رپورٹ کیا تھا۔ میں بھی دو ہفتے تک لندن میں رہا۔ آج بھی جب میں اے پی ایس واقعے کو یاد کرتا ہوں تو کچھ وقت کے لئے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں پھر سے ٹراما کی کفیت میں جا رہا ہوں۔ میں وہ شخص ہوں جس نے صرف اس واقعے کو رپورٹ کیا۔ میرا کوئی بھائی یا بیٹا سکول حملے میں شہید نہیں ہوا۔ لیکن اب ذرا ان والدین کے بارے میں بھی سوچیں ان کا کیا حال ہوگا جن کے جگر گوشے کس بے دردی سے ان سے جدا کر دیے گئے۔