ان میں ایک لیفٹننٹ جنرل عبداللہ نیازی تھے جن کے کندھوں پر پورے مشرقی محاذ کی ذمہ داری تھی۔ دوسرے صاحب میجر جنرل راؤ فرمان تھے جو بظاہر گورنر مالک کے سیاسی مشیر تھے مگر عملی طور پر صوبے کے انتظامی سربراہ سمجھے جاتے تھے۔ تیسرے افسر میجر جنرل جمشید تھے جو ڈھاکہ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے۔ کمرے میں دبے پاؤں چائے کے برتن لانے والے عملے کا خیال تھا کہ صاحب لوگ جنگ کی گمبھیر صورتِ حال پر مغز پاشی کر رہے ہیں۔ مگر ان اصحاب کے پیشِ نظر تو کہیں زیادہ اہم امور تھے۔ اس اجلاس میں بنگالی دانشوروں کی اس فہرست پر غور ہو رہا تھا جنہیں جنگ کا منطقی نتیجہ سامنے آنے سے پہلے ختم کرنا ضروری تھا۔ ہجرتی گھر چھوڑنے کے بھی کوئی آداب ہوتے ہیں۔
دسمبر کا مہینہ سرد ہوتا ہے۔ 1971 کے برس میں یہ مہینہ معمول سے کچھ زیادہ ہی سرد تھا۔ پاکستان کے مشرقی حصےمیں نو مہینے سے خانہ جنگی جاری تھی۔ لاکھوں شہری مارے جا چکے تھے۔ ایک کروڑ مہاجر سرحد پار کر کے بھارت جا بیٹھے تھے۔ عورتوں، بچوں، کسانوں اور تاجروں میں سے جس کے پاس لٹانے کو جو تھا، لٹ چکا تھا۔ گاؤں جل چکے تھے۔ شہر اور قصبے ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔
3 دسمبر سے پاکستان اور بھارت میں شروع ہونے والی کھلی جنگ اختتامی مرحلے میں تھی۔ مشرقی حصے کے عوام میں متحدہ پاکستان سے بدظنی اپنے نقطہ عروج کو پہنچ چکی تھی۔ مغربی پاکستان دادو لوہار کے خطبات اور ملکہ ترنم کے جوشیلے ترانوں میں مگن تھا۔ اندرونی اور بیرونی محاذوں پر ناکافی ہتھیاروں، نیم دِلانہ قیادت، ناقص منصوبہ بندی اور غضب آلود عوام سے چومُکھی لڑائی لڑتے پاکستانی فوجی قدم بہ قدم پیچھے ہٹتے بالآخر ڈھاکہ تک محدود ہو چکے تھے۔ جنرل ناگرہ بوڑھی گنگا کے میر پور پُل پر آن بیٹھا تھا۔
یہ سوال دلچسپ ہے کہ ایسے میں جب جنرلوں کو ڈھاکہ کے دفاع کی فکر ہونا چاہیے تھی وہ اساتذہ، سائنسدانوں، صحافیوں، تاریخ دانوں، شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کے قتل کی فکر میں تھے۔ تاہم اس کا جواب کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ ایوب خان نے بھی تو رائٹرز گلڈ بنائی تھی جس کے طفیل شاعروں، ادیبوں کو سلہٹ کا سبزہ اور چٹاگانگ کی پہاڑیاں دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ ضیاالحق بھی تو دانشوروں کو سیم اور تھور قرار دے کر ان پر پانی،ہوا اور چاندنی حرام کرنے کی وعید سنایا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو انہوں نے روز نامہ’ ڈان‘ کے مدیر کو چہار چشمے کا خطاب دیا تھا۔
فوج جب کسی ملک پر قبضہ کرتی ہے تو اس کا مقصد عوام کے امکان کو بیدار کر کے ترقی کی راہیں کھولنا نہیں ہوتا۔ ہر فوجی حکمران کا خواب ایک ایسی چراگاہ ہے جہاں عوام کے نام پر بہت سی بھیڑ بکریاں اس کے دماغِ عالی پر اترنے والی ہر پھلجھڑی کو حکمِ خداوندی سمجھیں۔ دانشور وہ آوازہِ انکار ہے جو آمر کا خواب کِرکِرا کر دیتا ہے۔
آمر بڑی عرق ریزی سے اور اپنے چنیدہ حواریوں کی شبانہ روز محنت سے ایک آئین گھڑتا ہے ادھر کوئی بے ننگ و نام حبیب جالب پکار اٹھتا ہے ’ایسے دستور کو میں نہیں مانتا‘۔ حکمران صدارتی نظام کے حق میں قائد اعظم کی ڈائریاں ایجاد کرتا ہے تو ڈاکٹر مبارک علی نامی کوئی مورخ قلم گھسیٹ گھسیٹ کر قوم کو بتانے لگتا ہے کہ قائد اعظم نے تو کبھی ڈائری لکھی ہی نہیں تھی۔
حکمران اخبار والوں کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر وسیع تر قومی مفاد میں نظریہ پاکستان گھڑتا ہے تو ڈاکٹر مہدی حسن نامی کوئی استاد اپنی پاٹ دار آواز میں قائداعظم کی کوئی گمنام تقریر دہرانے لگتا ہے جو انہوں نے کہیں 11 اگست 1947 کو کی تھی۔ دانشور کو اس کے علم کا کیڑا، تحقیق کی عادت اور بصیرت کا تقاضا کاٹتا رہتا ہے۔ اس کی دلیل بازی کی عادت سے فوجی حکمران کی جان ضیق میں آ جاتی ہے۔ ہر عہد میں الطاف گوہر، ابن الحسن، نوابزادہ شیر علی خاں، راجہ ظفرالحق، جام صادق اور شیرا فگن جیسے محبِ وطن جابر سلطان کو یہ کلمہ حق سناتے رہتے ہیں کہ اگر مٹھی بھر دانشوروں کا ٹینٹوا دبا دیا جائے۔ صحافیوں کو گرمی میں میانوالی اور سردی میں مظفرآباد کی سیر کرائی جائے، شاعروں کی شراب بند کر دی جائے، یونیورسٹیوں کو حوالداروں کے حوالے کر دیا جائے تو عوام بہتر طور پر برکاتِ حکومتِ خود آرا سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ منعم خان اور امیر محمد خان جیسے شہریاروں کا نسخہ یہ ہوتا ہے کہ حالات درست کرنے کی بجائے حالات کی خرابی کی نشاندہی کرنے والوں کا منہ بند کر دیا جائے۔ ان خیر اندیشوں کی تقریِر پُر تاثیر میں ایسی لذت ہوتی ہے کہ رفتہ رفتہ خود حکمران کو بھی یقین ہونے لگتا ہے کہ دانشور ملک دشمن، بد اندیش نیز خونی پیچش میں مبتلا کسی گروہ کا نام ہے جس کی بیخ کنی ہی میں قوم کی فلاح ہے۔
متحدہ پاکستان میں اردو، اسلام اور بھارت دشمنی کی تین پہیوں والی سائیکل چلانے والے ہمیشہ یہی کہتے اور سمجھتے رہے کہ مشرقی پاکستان کی بے گانگی کا اصل سبب معاشی ناہمواری اور سیاسی استحصال نہیں بلکہ وہاں کا دانشور طبقہ بالخصوص ہندو اساتذہ ہیں جو عوام میں الٹی سیدھی باتیں پھیلاتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ بنگالی عوام کے سیاسی شعور کی بیداری میں وہاں کے روشن خیال اور جمہوریت پسند دانشوروں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا اور یہ امر راؤ فرمان جیسے فوجی افسروں سے مخفی نہیں تھا جو قریب ایک عشرے سے مشرقی پاکستان کے جملہ امور چلا رہے تھے۔
ربع صدی کی سیاسی کشمکش کے بعد جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی نوشتہ دیوار نظر آنے لگی تو مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران نے خالص جاگیردارانہ انداز میں ’دشمنی‘ کو آخری دم تک نبھانے کا فیصلہ کیا۔ منتخب یونیورسٹی اساتذہ کے قتل کا سلسلہ تو 1969 ہی سے شروع ہو چکا تھا۔ جب راجشاہی یونیورسٹی میں کیمسٹری کے استاد شمس الضحٰی کو دِن دھاڑے قتل کیا گیا تھا۔ 25 مارچ 1971 کی قیامت خیز رات کے مقتولوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے متعدد اساتذہ بھی شامل تھے۔
عوامی لیگ کی منتخب قیادت کے بھارت جانے کے بعد منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں جماعت اسلامی فوجی قیادت کے بہت قریب آ گئی۔ یوں بھی جماعت اسلامی کے لیے عوامی لیگ کی غیر مذہبی سیاست بدیہی طور پر ناقابلِ برداشت تھی۔ مکتی باہنی کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی انتظامیہ نے جماعت اسلامی کو اپنا مسلح بازو تشکیل دینے کی ترغیب دی۔ ابتدائی طور پر تو اسے البدر ہی کا نام دیا گیا (30 برس بعد کشمیر جہاد میں بھی جماعت اسلامی نے اپنی پروردہ جہادی تنظیم کے لیے البدر ہی کا نام چنا) تاہم صدیق سالک لکھتے ہیں کہ بعد ازاں اسی تنظیم کو الشمس بھی کہا جانے لگا تا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی وسیع مخالفت کا تاثر پیدا کیا جا سکے ۔ جماعت اسلامی کے رضاکار مکتی باہنی جیسی مسلح تنظیم کا کیا مقابلہ کرتے جس کے ارکان بھارت سے باقاعدہ فوجی تربیت پا چکے تھے۔ البتہ البدر اور الشمس کے ارکان کو غیر مسلح مگر روشن خیال دانشوروں پر دل کے ارمان نکالنے کا اچھا موقع ہاتھ آیا۔
البدر کے رہنماؤں میں مولوی غلام اعظم، مولوی عبدالمنان اور طالبعلم اشرف الزماں کے نام نمایاں ہیں۔ البدر کو فوجی تربیت کے لیے باقاعدہ سرکاری تعلیمی ادارے مہیا کیے گئے۔ سیکولر دانشوروں کو جسمانی طور پر ختم کرنے کے اس سلسلے کا ہولناک ترین واقعہ پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے سے صرف دو روز قبل 14 دسمبر کو پیش آیا۔واقعات کے مطابق البدر کے ارکان نے ایک باقاعدہ فہرست کے مطابق آدھی رات کو ڈھاکہ کے دو درجن سے زیادہ چیدہ چیدہ دانشوروں کو اغوا کیا۔ ان میں سے بیشتر اساتذہ یا تو اپنے شعبوں کے سربراہ تھے یا علمی اور ادبی حلقوں میں نہایت نمایاں مقام رکھتے تھے۔ انہیں مختلف مقامات پر رکھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر ریئر بازار اور میرپور نامی دو مقامات پر انہیں بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ 17 دسمبر کو ان کی مسخ شدہ لاشیں کچے بند کے قریب پایاب پانی سے برآمد ہوئیں۔ ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ پشت پر بندھے تھے اور سر میں گولی کا نشان تھا۔ ممتاز ماہرِ امراض چشم ڈاکٹر فضل ربی کی آنکھیں نکالی جا چکی تھیں۔
اس موقع پر جب جنگ کا حتمی نتیجہ سامنے آ چکا تھا، متحدہ پاکستان کی حمایت یا مخالفت بے معنی ہو چکی تھیں۔ اس مرحلے پر کسی سیاسی مخالف کو قتل کرنے سے کوئی سیاسی یا جنگی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ حمود الرحمٰن کمیشن کے سامنے لیفٹننٹ جنرل عبداللہ نیازی، میجر جنرل راؤ فرمان اور میجر جنرل جمشید تینوں نے اس نوعیت کی فہرست سازی کا اقرار ضرور کیا مگر فوج کے اس کارروائی میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔ شواہد سے بڑی حد تک اس مؤقف کی تصدیق ہوتی مگر جنگ کے بعد بھارتی فوج کو جنرل فرمان کے میز سے ایک ڈائری ملی جس میں خود جنرل فرمان کے ہاتھ سے ناموں کی ایک فہرست تحریر تھی۔ ان ناموں میں سے چودہ افراد 14 دسمبر کی رات مارے گئے۔ الطاف گوہر راوی تھے کہ انہوں نے ایک مشترکہ دوست کے توسط سے راؤ فرمان کو اپنے عزیز دوست ثناالحق کی جان بخشی کی سفارش کی تھی۔ راؤ فرمان کی فہرست میں ثناالحق واحد خوش نصیب تھے جو 14 دسمبر کے بعد بھی زندہ رہِے۔
امریکی ہفت روزے ٹائم نے 19 دسمبر 1971 کی اشاعت میں پہلی بار اس واقعے سے پردہ اٹھایا۔ لیکن نرمل کمیشن سے لے کر حکومتی تحقیق تک اس واقعے پر کوئی قانونی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ مولوی غلام اعظم 1978 میں پاکستان سے بنگلہ دیش واپس چلے گئے تھے اور1991 سے وہاں جماعت اسلامی کے امیر ہیں ۔مولوی عبدالمنان دانش کے اس قتل میں ذاتی طور پر شریک تھے، وہ ایک سے زیادہ مرتبہ وزیر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ اشرف الزماں کی ڈائری میں 14 دسمبر کے آٹھ مقتول دانشوروں کے نام پتے درج تھے۔ اشرف اب امریکہ میں ایک اسلامی مرکز چلاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ البدر کے بیشتر سابق ارکان آجکل برطانیہ میں مسجدوں کے پیش امام ہیں۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد متعدد مواقع پر اپنی مخصوص گھن گرج کے ساتھ انصاف کے بلند بانگ دعوے کرنے والے مجیب الرحمٰن نے 1973 میں تمام بنگالی نژاد جنگی مجرموں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا۔ بنگلہ بندھو کی اس قلابازی کے متعدد پہلو ہیں۔ بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی میں مرنے والے قریب قریب تمام دانشور روشن خیال ہونے کے علاوہ بائیں بازو کے رجحانات بھی رکھتے تھے۔ عوامی لیگ کے آئندہ طرزِ حکومت میں بلند آہنگ اور عوام دوست دانشوروں کے لیے کہاں جگہ تھی؟ دوسرے بھارت کو یہ کب پسند تھا کہ بنگلہ دیش کے حریت پسندوں سے نکسل باڑی تحریک تقویت پائے۔ اور تیسرے یہ کہ امریکی حکام کو پیکنگ نواز دانشور کیسے ہضم ہوتے۔ سو یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا۔
(وجاہت مسعود کا یہ مضمون فروری 2019 کو شائع ہوا، جسے نیا دوراردو کے قارئین کے لیے دوبارہ پوسٹ کیا جارہا ہے)