طالبان کے ساتھ معاملات میں پاکستان نے کہاں غلطی کی؟

12:47 PM, 16 Dec, 2022

حامد میر
11 دسمبر کو افغانستان میں طالبان کی حکومتی افواج نے سرحد کے بالکل پار پاکستان کے ایک قصبے پر گولہ باری کی جس میں 7 پاکستانی شہری مارے گئے۔ پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایک طالبان جنگجو کو ہلاک اور 10 افغانوں کو زخمی کر دیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے افغان فورسز کی جانب سے 'بلا اشتعال گولہ باری' کی مذمت کی۔ 15 دسمبر کو دونوں فریقوں کے مابین سرحد کے آرپار پھر فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں کم از کم ایک پاکستانی شہری ہلاک جبکہ 15 دیگر زخمی ہوئے۔ پاکستان اور طالبان کے بیچ قریب قریب جنگ چھڑ چکی ہے۔

پاکستان کو اب اعتراف کر لینا چاہیے کہ اس کی دہائیوں پر محیط افغان پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا کی توجہ یوکرین پر روسی صدر پیوٹن کے حملے پر مرکوز ہے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقے میں قتل و غارت کے بارے میں زیادہ خبریں سامنے نہیں آ رہی ہیں حالانکہ ایک سنگین تباہی کا امکان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بیٹھی سیاسی اشرافیہ یہ سمجھتی تھی کہ وہ افغانستان میں پاکستان کے حامی جنگجوؤں کو پروان چڑھا کر تزویراتی گہرائی یعنی سٹریٹیجک ڈیپتھ پیدا کر رہے ہیں۔ تاہم یہی گروپ جنہیں اسلام آباد نے 'سٹریٹیجک اثاثے' قرار دیا تھا، وہی پاکستان کے لیے تازہ خطرے کا روپ دھار چکے ہیں۔

جب طالبان نے گذشتہ سال کابل پر قبضہ کیا تھا (امریکہ کے ساتھ اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے)، اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اس واقعے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ طالبان نے 'غلامی کی زنجیریں' توڑ ڈالی ہیں۔ بہت سے دیگر پاکستانیوں نے بھی طالبان کی فتح پر جشن منایا تھا۔

خود کو دیا جانے والا یہ دھوکہ زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا۔ اپنی فتح کے چند ہی دنوں کے اندر کابل کے نئے حکمرانوں نے پاکستانی طالبان (جنہیں تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے نام سے پکارا جاتا ہے) کے ارکان کو رہا کر دیا جو افغانستان کی جیلوں میں قید تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جو کئی برسوں تک اسلام آباد کے خلاف برسرپیکار رہے ہیں۔ کابل میں نئی حکومت نے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں کی جانب سے ایک صدی پہلے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر کھینچی گئی ڈیورنڈ لائن کو سرحد کے طور پر تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

میرے لیے یا مجھ جیسے کئی دیگر صحافیوں کے لیے جنہوں نے برسوں تک طالبان کے ساتھ معاملات کیے ہیں، طالبان کے تازہ اقدامات ہرگز حیران کن نہیں تھے۔ سقوطِ کابل سے پہلے ہی تمام متعلقہ افراد پر واضح ہو جانا چاہیے تھا کہ افغان طالبان پاکستان اور امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کر رہے ہیں۔ پھر بھی پاکستان نے افغان طالبان کے لیے اپنی حمایت جاری رکھی اور ساتھ ہی ساتھ واشنگٹن کو بھی راضی رکھنے کی سعی میں جُٹا رہا۔ پاکستان کی یہ پالیسی خاصی مبہم تھی۔ مُلا برادر جیسے طالبان رہنماؤں کی گرفتاری اور پھر رہائی اس ابہام کی ایک مثال ہے۔

اسے ستم ظریفی کہیں کہ افغانستان سے امریکی انخلا نے اس مبہم پالیسی کی اندرونی کمزوری کو بے نقاب کر دیا۔ جب میں نے جولائی 2021 میں افغان طالبان اور اسلام آباد کے روایتی حریف بھارت کے مابین ہونے والے خفیہ رابطوں کے بارے میں لکھا تو پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے ناراضگی کا اظہار کرنے میں بہت چستی سے کام لیا۔ بدقسمتی سے طالبان کے بارے میں میری پیش گوئیاں سقوط کابل کے بعد سچ ثابت ہوئیں۔ اب طالبان بھارت والوں کو خوش کر کے پاکستان پر کھلم کھلا دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

طالبان نے اس وقت کے پاکستانی انٹیلی جنس چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے جعل سازی کی تھی جنہوں نے امریکی انخلا کے بعد گذشتہ سال کابل کا دورہ کیا تھا اور میڈیا کو یقین دہانی کروائی تھی کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن وہ غلط ثابت ہوئے۔ انہوں نے ٹی ٹی پی کے کئی رہنماؤں کو رہا کر کے افغان طالبان کو خوش کرنے کی کوشش کی لیکن ٹی ٹی پی نے اس بات پر اصرار جاری رکھا کہ پاکستان مزید اقدامات کرے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید رواں برس ایک مرتبہ پھر روانہ ہوئے تاکہ افغان طالبان کو قائل کر سکیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان کا امن معاہدہ کروانے میں تعاون کریں تاہم اس کوشش میں بھی وہ ناکام ہو گئے۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں 51 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے باغیوں کے خلاف فضائی حملوں اور ڈرونز کا استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں کئی افغان شہریوں کو جانی نقصان پہنچا ہے۔ یہاں تک کہ افغانستان کے بعض شہروں میں پاکستان کے خلاف احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئی ہیں۔

جولائی میں کابل میں امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت نے افغانستان اور پاکستان کے مابین پہلے سے کشیدہ تعلقات کو مزید پستی میں دھکیل دیا۔ طالبان نے الزام لگایا کہ الظواہری کی موت کا ذمہ دار اسلام آباد ہے۔

پاکستان کے نئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ آٹھ ماہ میں کئی ممالک کا دورہ کیا ہے تاہم انہوں نے ابھی تک کابل کا دورہ نہیں کیا۔ چند ہفتے قبل انہوں نے اپنی نائب اور وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کو کابل بھجوایا تھا۔ وہ پہلی خاتون وزیر تھیں جنہوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کی کوشش کی۔ لیکن طالبان کے وزیر دفاع جو سینیئر طالبان رہنما ملا محمد عمر کے سب سے بڑے بیٹے ہیں، انہوں نے پاکستانی خاتون وزیر مملکت کے ساتھ ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔

29 نومبر کو جنرل عاصم منیر نے پاکستانی فوج کے نئے کمانڈر انچیف کا عہدہ سنبھالا۔ اگلے ہی روز پاکستان میں ایک خودکش بم دھماکے میں 4 شہری جاں بحق ہو گئے۔ ٹی ٹی پی نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ سابق 'سٹریٹیجک اثاثوں' نے خون میں لکھا پیغام بھیجا تھا۔

افغان طالبان پاکستان کو للکار رہے ہیں۔ طالبان رہنما سمجھتے ہیں کہ انہوں نے امریکہ کو شکست دے دی ہے تو وہ پاکستان جیسی ایٹمی طاقت کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔ مگر جس حقیقت کو وہ تسلیم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان اب دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ انہیں اس وقت پاکستان کے بجائے غربت کو شکست دینے کی اشد ضرورت ہے۔

اس سارے منظرنامے سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کو نئی افغان پالیسی کی ضرورت ہے جس کی بنیاد دو نکات پر ہونی چاہیے؛ عدم مداخلت اور سرحد کی حد بندی سے متعلق دوبارہ سے اتفاق پیدا کرنے کی کوشش۔ اس صورت میں سرحد پار سے حملوں کی روک تھام ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ پالیسی ملٹری انٹیلی جنس کے ہیڈ کوارٹر میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں سویلین قیادت کے ذریعے وضع کی جانی چاہیے۔ بصورت دیگر امکان ہے کہ 2023 پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے لیے ایک خطرناک سال ثابت ہوگا۔

یوکرین پر روسی حملے نے پاکستان اور افغانستان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی سے توجہ ہٹا دی ہے۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین بڑھتی کشیدگی کو بھی خبروں میں آنا چاہیے۔ اس تنازعے سے پورے جنوبی ایشیا میں نئی تباہی آ سکتی ہے جبکہ خطہ اس کا قطعی طور پر متحمل نہیں ہو سکتا۔




سینیئر صحافی حامد میر کا یہ مضمون The Washington Post میں شائع ہوا جسے 'نیا دور' اردو قارئین کے لیے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
مزیدخبریں