16 دسمبر 1971 کا واقعہ یوں تو انتہائی قیامت خیز تھا اور جب بھی اس بارے میں سنا یا پڑھا جائے تو افسوس کے سوا ہمارے حصے میں کچھ نہیں آتا اور پھر جب علیحدگی کے اسباب پڑھے جائیں تو افسوس کے ساتھ غصہ بھی آتا تھا مگر اب دنیا جس قدر آگے بڑھ گئی ہے اور ذہنوں کا ارتقا ہو چکا ہے تو میں کئی ایسے افراد سے مل چکا ہوں جو اپنے افسوس اور غصے کو ایک طرف رکھتے ہوئے بنگلہ دیش اور بنگالی بھائیوں کے لیے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بات تو ہمیں اب تسلیم کر لینی چاہئیے کہ اس دن کو ہمیں سقوط ڈھاکہ نہیں بلکہ آزادی بنگلہ دیش کے طور پر یاد کرتے ہوئے بنگالیوں کو مبارک باد دینی چاہئیے۔
حقیقت کو تسلیم کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے اور حقیقت یہی ہے کہ بنگالی ہم سے علیحدہ ہو کر خوش حال اور آزاد ہوگئے۔ آج حالات یہ ہیں کہ ان کے جی ڈی پی پر دنیا سروے کر رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش جس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے 2024 میں اس کا جی ڈی پی ریٹ بھارت سمیت کئی بڑی مارکیٹوں کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ میں کئی ایسے نوجوانوں کو جانتا ہوں جو پاکستان کے بجائے بنگلہ دیش میں جانے اور وہاں کی شہریت لینے کو بہتر سمجھتے ہیں۔ ایک نوجوان دوست جو اب بیرون ملک جا چکا ہے یہاں تک کہنے لگا کہ میرے بڑوں نے نہ جانے کیوں یہ خطا کی کہ چلو بھارت سے تو پاکستان آئے مگر یہاں سے نکل کر 71 میں بنگلہ دیش ہی چلے جاتے اور میں وہاں پیدا ہو کر آج خوش حال ملک کا شہری تو ہوتا۔ جہاں آزادی اظہار ہوتا اور میرٹ کی قدر ہوتی۔
میرٹ نہ ہونے کی بنیادی وجہ جھوٹ کا پرچار اور سچ کو دبانا ہے جو پاکستان میں بھر پور طریقے سے کیا جاتا ہے۔ قوم کا مستقبل سچ تب ہی جان پائے گا جب اس کی ذہنی نشوونما سچ پر ہو گی مگر افسوس یہ کہ ہمارے ہاں ذہنی نشوونما کرنے والی پہلی درس گاہ میں ہی جب بچہ سیکھتا ہے تو ہمیں مطالعہ پاکستان پڑھا دی جاتی ہے اور نورجہاں کے نغموں پر غمگین کر دیا جاتا ہے۔ مطالعہ پاکستان نصابی کتب کم اور کسی خلائی مخلوق یعنی Aliens کے کرشماتی کارناموں پر مبنی کتاب کی حیثیت زیادہ رکھتی ہے۔
آپ اندازہ کیجئے کہ 1971 کی ہار کو بھی ہم نے کتاب میں کس طریقے سے گھمایا ہے۔ ہارنے کے اسباب لکھنے کے بجائے یا تو الزام بھارت اور مکتی باہنی پر دھر دیا یا پھر شہدا کے نام لکھ کر قوم کو جذباتی کر دیا کہ اس سے آگے کوئی سوچ ہی نہ سکے۔ حال ہی میں سابق آرمی چیف صاحب نے اپنی طرف سے قصہ ہی تمام کر دیا کہ 71 کا سانحہ فوجی نہیں سیاسی ناکامی ہے۔ اب مسئلہ یہاں یہ ہے کہ آرمی چیف صاحب کا یہ بیان قابل بحث تھا ہی نہیں کیونکہ قبلہ و کعبہ صاحب کوئی گفتگو نہیں فرما رہے تھے بلکہ ایک سٹیٹمنٹ دے رہے تھے جسے موقع پر نہ ہی ٹوکا جا سکتا تھا اور نہ روکا جا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ سوال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
تب تو کیا شاید اب بھی سوال کرنے کی جرات کسی میں نہیں کہ جناب یہ آپ نے کس بنیاد پر ارشاد فرمایا کہ یہ ایک سیاسی ناکامی تھی کیونکہ سیاست کا تو کوئی اختیار ہی موجود نہ تھا۔ ملک میں مارشل لا لگا ہوا تھا، یحییٰ خان مسند اقتدار پر اختیار کے نشے میں دھت بیٹھے تھے۔ انتخابات کے بعد آپریشن کے ذمہ داران جنرل ٹکا خان، جنرل نیازی تھے تو سیاسی ناکامی کیسے حضور؟ اور اگر آپ کا اشارہ ذوالفقار علی بھٹو کے بیانات کی جانب ہے تو قبلہ بھٹو صاحب کی حالت اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹ سے زیادہ کی کچھ نہ تھی۔ بھٹو صاحب اس وقت 2018 والے عمران خان سے زیادہ پاور میں نہیں تھے۔ جیسے عمران خان نے رجیم چینج کا نعرہ لگا کر کہا کہ میں حکومت کو نہیں مانتا اسی طرح بھٹو صاحب کے ماننے نہ ماننے کی حیثیت بھی ایک بیان کے سوا کچھ نہ تھی۔
جب تک کسی کے کندھے پر آپ کا دست شفقت نہ ہو، اس کی کیا اوقات کہ وہ کوئی بیان دے کر اس پر عمل کر پائے۔ تب بھٹو صاحب کی تھالی یحییٰ خان والی تھی تو طوفان برپا ہو گیا وگرنہ آج کے دور میں عمران خان نے اس سے زیادہ خطرناک بیانات دیے ہیں، حکومت میں رہتے ہوئے بھی اور اب اپوزیشن میں بھی جو کہ باقاعدہ قومی سلامتی کے اداروں تک کو مشکوک بنانے کی ناکام کوشش تھی اور عالمی تاثر انتہائی خطرناک تھا مگر نتیجہ کیا ہوا؟ کچھ نہیں کیونکہ عمران خان کی تھالی اسٹیبلشمنٹ والی نہیں رہی۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس ناکامی کے اصل ذمہ داران کا تعین تاریخ اور حقائق کی بنیاد پر کیا جائے تو آپ کو چاہئیے کہ آج بھی تاخیر نہیں ہوئی۔ آپ سرکاری سطح پر حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیجئے اور قومی سطح پر اس واقعے میں ایک قومی ڈائیلاگ کا انتظام کریں۔ سابق فوجی افسران قوم کے سامنے آ کر اپنی صفائی پیش کریں اور مورخین کے لکھے حقائق اور حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے حقائق عوام کے سامنے آئیں اور ذمہ داروں کا نہ صرف تعین ہو بلکہ قومی نصاب اور تاریخ میں ان کے نام شامل کئے جائیں اور اسباب عوام کو بتائے جائیں۔ مگر حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پر جس چڑیل یا بھوت پریت کا سایہ ہے جو یہ اب تک سرکاری سطح پر سامنے نہیں آئی یہ سایہ ختم کریں۔ اس کے بارے میں من ہی من میں سب کو معلومات ہیں۔ صرف غلطیوں کو تسلیم کرنا بہادری نہیں بلکہ اس کا کفارہ یوں ادا کرنا کہ آئندہ کے لیے وہ مشعل راہ بنے کہ اس سے بچا جائے یہ ضروری ہے۔
ہمارے ہاں یہ رویہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ بانی پاکستان کی وفات سے چلتا آ رہا ہے کہ ملکی تاریخ میں ہوئے حادثات کے حقائق کو اتنا پرانا کر دو کہ ان کی یاد جب آئے تو مذاق بن جائے۔ قائد اعظم کی ایمبولینس کے پیٹرول ختم ہونے سے لیاقت علی خان کے قتل تک اور پھر فاطمہ جناح کے انتقال سے بی بی شہید کی شہادت تک تمام حقائق پس پردہ اس طرح رکھے گئے کہ نئی نسل نے اسے جب یاد کیا حقائق کی بجائے مذاق بنا دیا۔
یوں تو ہمارا نعرہ ہے کہ اپنے تو چھوڑو دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے مگر حالت یہ ہے کہ اپنے بچے پڑھنا تو دور، ملک میں رہنے کے حامی بھی نہیں ہیں۔ نصاب اور تعلیم کا معیار یہ ہے کہ پاکستان سے ماسٹرز کیا شخص ایتھوپیا جیسے ملک میں بھی چلا جائے تو ان کے دسویں کے بچے کا مقابلہ نہ کر پائے اور اس کی وجہ صرف اور صرف حقائق سے لاعلم رکھنا ہی ہے۔
بھارت کی آزادی ہمارے ساتھ ہی ہوئی مگر وہاں کی موجودہ حکومت ہو یا وہاں کے عام عوام، انہوں نے دماغوں کو اس قدر وسعت دی اور آزادی اظہار کو یوں استعمال کیا کہ آج وہ اپنے بانی مہاتما گاندھی سے لے کر پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو تک کی پالیسیوں سے کھلے عام اختلاف کرتے ہیں مگر ان پر کوئی پرچہ درج نہیں ہوتا بلکہ علمی مباحث ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں بانی وطن تو چھوڑیں، اداروں اور اداروں کے سربراہان پر بات کرنے پر بھی حکومتی سطح پر قانون ایسے بنائے گئے ہیں کہ پرچے کے ساتھ ساتھ زندگی بھر کے رونے بھی مقدر بن جاتے ہیں۔
پوری تحریر میں لکھے مدعے اور مقدمے کا مقصد قطعی طور پر ملک کو برا بتانا نہیں بلکہ ملک کے بارے میں احساس کی بنیاد پر ہونے والی مایوسی تھی جسے جذبات کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ یقیناً اس وضاحت کا مقصد بھی اب دل و دماغ میں بیٹھا وہ ڈر ہے کہ کہیں اس آرٹیکل کا جواب میرے لئے خطرناک ثابت نہ ہو اور بس یہی وہ ڈر ہے جس نے اس ملک کی یہ حالت کر رکھی ہے۔