یہ درست ہے کہ دھرنے کے دنوں میں عمران اور طاہر القادری بھی مولانا فضل رحمان کے راستے پر ہی کھڑے تھے مگر اس وقت کے حکمرانوں نے یہ بات نہیں اٹھائی تھی۔ نوازشریف دباؤ اور مصلحت کا شکار رہے حالانکہ نواز شریف کو جرات مندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی۔ مگر نوازشریف میں جمہوریت اور آئین پسندی کا خمیر ہی نہیں ہے تو اس نے وہی کیا اور اب کر رہے ہیں جو نواز شریف کا خمیر ہے۔
حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے، سیاست عہد کی ہوتی ہے۔ نواز شریف بطور وزیر اعظم یہ جرات نہیں کر سکے تھے کہ عمران خان اور طاہر القادری کی پشت پناہی کرنے والوں کو بے نقاب کرتے۔ عمران خان اگر یہ جرات کر رہے ہیں تو سیاسی و جمہوری قوتوں کو مصلحت کا شکار ہونے کے بجائے عمران خان اور حکومت کے ہم آواز ہونے کی ضرورت ہے۔ عمران خان اور حکومت کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کو حکومت کے خاتمے کی یقین دہانی پر بات کی جا رہی ہے کہ حکومت گرانے کی یقین دہانی مولانا فضل الرحمان کو کس نے کرائی اور مولانا فضل الرحمان نے یہ غیرآئینی اور غیر قانونی، غیر جمہوری، غیر پارلیمانی راستہ اختیار کیوں کیا؟
مولانا فضل الرحمان نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ کچھ دنوں میں عمران خان سے استعفا لے لیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان نے پرویز الہی کا نام بھی لیا ہے کہ انہیں پرویز الہی کے ذریعے یقین دہانیاں کرائی گئیں تھیں۔
آئین، جمہوریت اور اصول کی بات کی جائے تو مولانا فضل الرحمان نے جمہوریت، پارلیمان، آئین اور عوام سے غداری کی ہے جس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ مولانا فضل الرحمان پر مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمان نے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ عوام کے سامنے آئین، جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کا راگ الاپتے رہے ہیں۔ عوام مولانا فضل الرحمان کی جرات و بہادری سے آئین و جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے پر داد تحسین دیتے رہے ہیں، راقم نے بھی مولانا کی جانب سے بے باک پوزیشن لینے پر مضامین لکھے اور تحسین کی کہ مولانا نے سیاست کی ہے اور باقیوں نے کاروبار کیا ہے۔ یعنی راقم کا تجزیہ غلط ثابت ہوا اور باقیوں نے اس وقت مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کھڑے نہ ہو کر درست عمل کیا اور کسی غیرجمہوری اور غیرآئینی اقدام کی جانب جانے کی بجائے اپنا راستہ بدل لیا۔
مولانا فضل الرحمان کے خلاف مقدمہ عہد کی ضرورت ہے۔ یہ روایت قائم کی جائے کہ کوئی سیاست دان اقتدار کی خاطر غیرآئینی اور غیر جمہوری راستہ اختیار نہ کرے۔ وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے پر بات کی ہے جس کی تائید وزیراعظم نے بھی کر دی ہے۔ اب یہ قرض جمہوری اور آئین پسند سیاست دانوں پر ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کے خلاف مقدمہ اور تحقیقات کے لئے حکومتی مؤقف کا ساتھ دیں اور یہ غیر آئینی اور غیر جمہوری چور راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیں۔ اگر آج سیاست دانوں، جمہوری قوتوں نے ہوش مندی کا مظاہرہ نہ کیا تو پھر نوازشریف کا انجام سب کے سامنے ہے۔