’بلوچستان کے بہت سے علاقے غربت کی سطح سے انتہائی نیچے زندگی بسر کرنے پرمجبور‘

’بلوچستان کے بہت سے علاقے غربت کی سطح سے انتہائی نیچے زندگی بسر کرنے پرمجبور‘
:ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے غربت میں کمی اور سماجی تحفظ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی کی سربراہی میں ادارہ برائے پاکستان غربت میں کمی اور سماجی تحفظ کے ہیڈآفس میں منعقد ہوا۔


قائمہ کمیٹی اجلاس میں ادارے کے جاری و مستقبل کے منصوبہ جات کی موجودہ صورتحال اور پیش رفت کے علاوہ مستقبل کے منصوبہ جات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔قائمہ کمیٹی کو ادارے کے جاری و مستقبل کے منصوبوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔


ادارہ برائے پاکستان غربت میں کمی اور سماجی تحفظ کے چیف ایگزیکٹو نے بریفنگ میں قائمہ کمیٹی کو ادارے کے جاری ومستقبل کے منصوبہ جات بارے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان آبادی کے تناسب سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جس کی آبادی تقریباً22 سے23 کروڑ تک ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ بلوچستان کے بہت سے علاقے غربت کی سطح سے انتہائی نیچے زندگی بسر کرنے پرمجبور ہیں جبکہ صوبہ سندھ کے بعض اضلاع تھر، بدین، ٹھٹہ اورصوبہ خیبر پختونخواہ کے بھی بعض اضلاع میں بھی انتہائی غربت ہے۔


کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک میں ادارے کے جانب سے 144 مقامات پر 130 تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ صحت، تعلیم، پانی اور تعمیراتی شعبوں میں 38,600 منصوبہ جات مکمل کر چکے ہیں اور حکومت کے ساتھ مل کر مزید ان منصوبوں پر کام میں تیزی لا رہے ہیں۔


کمیٹی کو بتایا گیا کہ حکومت کی جانب سے ادارے کے پاس احساس آمدن اور احساس بلا سود قرضہ دو پروگرامز ہیں اور حکومت نے غریبوں کی مدد کیلئے یہ پروگرام ادارے کو فراہم کیے ہیں۔ ملک کے وہ علاقے جہاں غربا کی تعداد بہت زیاد ہ ہے وہاں تک رسائی ہے لیکن وہ لوگ جو کہ بہت غریب ہیں ان کی نشاندہی کیلئے ورلڈ بنیک کے ساتھ غربت جانچنے کا ایک سسٹم بنایا گیا ہے۔اعداد وشمار میں ان افراد کے اثاثہ جات کی جانچ پڑتا ل کی جائے گی اس کے مطابق ان کی غربت کا معیار مقرر ہوگا۔ ادارے کی اس حکمت عملی کو حکومت نے بھی سراہا ہے۔


کمیٹی کو بتایا گیا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 4.5 ملین لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ احساس آمدن پروگرام کے تحت زیادہ سے زیادہ رقم 75 ہزار روپے فی کس ہے جس میں 55 فیصد خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔ احساس بلا سود پروگرام کے تحت حکومت کی جانب سے 5 بلین دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کے پاس غربت میں خاتمہ کے حوالے سے سال2021 تا2026 تک پانچ سالہ منصوبہ بندی ہے جس کے تحت انتہائی غریب خواتین کی مالی امداد کر کے انہیں بہتری کی جانب لانا ہے اور پسماندہ علاقوں کو ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کی سطح پر لانا ہے۔ امن، انصاف اور تعمیراتی شعبوں میں مزید بہتری لانی ہے۔موسمی تغیرات کے حوالے سے بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔


سینیٹر انجینئر رخسانہ زبیری نے کہا کہ کراچی کے بعض علاقوں اور خاص طور پر ابرہیم حیدری،اورنگی شامل ہیں میں لوگ انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان علاقوں پر خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ کراچی میں کوٹسل ایریا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ادارے کی جانب سے کام کیاگیا ہے اور ان علاقوں جہاں لوگ غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں ان کا ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے۔


سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے کمیٹی اجلاس کے دوران ایک ویڈیو کے ذریعے فاٹا کے پسماندہ علاقہ کے ایک یتیم بچے کو ٹافیاں اور کچھ اشیا فروخت کر تے ہوئے دکھایا۔ انہوں نے کہاکہ اس بچے کے پاس شناختی کارڈ بھی نہیں ہے اس طرح کے یتیم اور بے سہارا بچوں کیلئے ادارے کی کیا حکمت عملی ہے۔جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ بیت المال اور بے نظیر انکم سپورٹ  جیسے ادارے پہلے سے موجود ہیں جو کہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ مختلف قسم کے شیلٹر ز اوردیگر سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔


چیئرمین کمیٹی سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ ادارے کو ملک بھر کے تمام اضلاع خصوصاً فاٹا، صوبہ سندھ میں تھر اور بلوچستان میں نوشکی و دیگر اضلاع کا دورہ کرنا چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ کون سے علاقوں میں غربت زیادہ ہے اور کون سے علاقوں میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔


چیئرمین کمیٹی سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ صوبہ بلوچستان میں غربت کی وجہ سے حالت انتہائی خراب ہے۔ ضلع نوشکی بارڈر تجارت کی وجہ سے کچھ قدر بہتر ہے لیکن وہاں زیر زمین پانی کا نام ونشان بھی نہیں ہے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی نے کہاکہ وہ خود اس ضلع میں 8 سے10 ڈیم تعمیر کروا چکے ہیں۔انہوں نے ہدایت دی کہ اس ضلع میں پانی کے سنگین مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ سال2015 میں غربت میں کمی کا ہدف 25فیصد مقرر کیا گیا تھا جس کو ادارے کی کاوشوں سے 12 فیصد پر لایا گیا جو کہ ادارے کی جانب سے ایک اچھی کارکردگی ہے۔


سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے کہاکہ دبئی میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے مصنوعی طریقے سے بارشیں برسائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی بارشیں برسانے والی کمپنی کو پاکستان دورے کی دعوت دی ہے اور بلوچستان میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے مصنوعی بارشوں کے حوالے سے اقدام کر رہا ہوں جس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ اس ٹیکنالوجی سے چین نے بھی استفادہ حاصل کیا ہے۔ سینیٹر لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم (ہلا ل امتیاز ملٹری) نے کہا کہ کوئی بھی ملک لوگوں کو پیسے دینے سے امیر نہیں ہوتا۔ غریبوں کی مدد کے ساتھ ساتھ ان کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں اور انہیں ہنر مند بنایا جائے۔ٹیکسٹائل ٹریننگ دی جائے تاکہ بہتری آئے

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔