جس دن یہ نیا آئین نافذ ہوگا، آزادی اور تبدیلی کا ایک نیا سورج طلوع ہوگا
منگو کو لگتا ہے کہ جس دن یہ نیا آئین نافذ ہوگا، آزادی اور تبدیلی کا ایک نیا سورج طلوع ہوگا۔ انگریزوں کی حکومت ختم ہو جائے گی اور ہندوستان میں رہنے والے عام لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب آجائے گا۔ اس لئے وہ بے چینی سے یکم اپریل کے دن کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ آخر کار وہ دن آتا ہے، خوشی سے سرشار منگو اپنے تانگے پر اس امید پر شہر کی طرف نکلتا ہے کہ سب کچھ بدل چکا ہوگا مگر سب ویسا دیکھ کر مایوس ہو جاتا ہے اور اسی مایوسی کے عالم میں ایک انگریز سپاہی سے لڑ پڑتا ہے اور جیل پہنچ جاتا ہے۔ جہاں پر اس کو احساس ہوتا ہے کہ تبدیلی کا جو خواب اس نے دیکھا تھا وہ غلط تھا۔
انصاف سب کے لئے ہو گا؟
تبدیلی کا اس طرح کا ہی ایک خواب یہاں پر کچھ لوگوں نے دیکھا تھا۔ جن کو منگو کی طرح یہ لگتا تھا کہ جب یہاں پر عمران خان صاحب اقتدار میں آئیں گے تو انقلاب برپا ہو جائے گا اور ایک نیا پاکستان بنے گا۔ کیونکہ ان کو یہ بتایا گیا تھا کہ خان صاحب سے پہلے یہاں پرجتنے بھی لوگ اقتدار میں رہے، انہوں نے بیدردی سے اس ملک کے عوام پر ظلم کیے اور ان کا پیسہ لوٹا اور ملک کے تمام اداروں کو تباہ کر دیا۔ تو ان کو لگتا تھا کہ جب عمران خان صاحب اقتدار میں آئیں گے تو ان سب کا احتساب کر کے ان کو کڑی سزائیں دی جائیں گی۔ سارے ادارے ٹھیک کر دیے جائیں گے۔ ملک کے سارے قرضے اتار دیے جائیں گے۔ کوئی بھی غیر ملکی دورہ نہیں کیا جائے گا۔ کسی بھی ملک سے کوئی بھی امداد نہیں لی جائے گی۔ پولیس کا نظام بدل دیا جائے گا۔ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ معیشت کو ٹھیک کر دیا جائے گا۔ طاقتوروں اور کمزوروں کے لئے ایک ہی قانون ہو گا۔ انصاف سب کے لئے ہو گا۔
خان صاحب نے نہ صرف چائنہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، ملائیشیا کے دورے کیے بلکہ ان سب ممالک سے امداد بھی لی
آج عمران خان صاحب کو اقتدار میں آئے ہوئے پانچ ماہ ہو گئے ہیں۔ اس پورے عرصے میں خان صاحب نے وہی سارے کام کیے جو کرنے کی وجہ سے وہ اور ان کے سپورٹرز اپنے سے پہلے حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ مثلاً جب بھی پچھلے حکمرانوں نے دوسرے ملکوں کے دورے کیے اور انہوں نے ان ملکوں سے امداد لی تو ان کو برا بھلا کہا گیا۔ مگر پانچ ماہ کے اس قلیل عرصہ میں خان صاحب نے نہ صرف چائنہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، ملائیشیا کے دورے کیے بلکہ ان سب ممالک سے امداد بھی لی۔ آئی ایم ایف سے امداد لینے کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا مگر اب خود اس کے پاس گئے۔ احتساب کی اگر بات کی جائے تو خان صاحب کی حکومت بھی اپنے سے پہلے والی حکومتوں کی ہی ڈگر پر چل رہی ہے۔ جس طرح ان حکومتوں میں نیب کو احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کیا گیا بالکل اسی طرح اب بھی نیب کو صرف اپوزیشن جماعتوں کے لوگوں کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور حکومت کے لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے سے احتساب کا عمل جانبدار ہو گیا ہے۔
وہی بیرونی قرضوں اور آئی ایم ایف والی اسحاق ڈار صاحب والی پالیسی پر اسد عمر صاحب عمل پیرا ہیں
اسی طرح اگر معیشت کی بات کریں تو جو عمران خان صاحب گذشتہ حکومتوں پر پٹرول، گیس، بجلی کی قیمتیں بڑھانے اور نئے ٹیکس لگانے پر تنقید کرتے تھے۔ ان کی ہی حکومت نے ان سب کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ اور اسی ماہ میں ایک منی بجٹ لایا جا رہا ہے۔ جس میں نئے ٹیکس لگائے جائیں گے اور بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں مزید بڑھائی جائیں گی۔ ڈالر کو مہنگا کرنے اور معیشت کی باقی ساری پالیسیوں کو ان کی حکومت کے سابقہ معاشی ترجمان ڈاکٹر فرخ سلیم غلط کہہ چکے ہیں۔ وہی بیرونی قرضوں اور آئی ایم ایف والی اسحاق ڈار صاحب والی پالیسی پر اسد عمر صاحب عمل پیرا ہیں۔ وی آئی پی کلچر کی اگر بات کی جائے تو اب بھی وہی پروٹوکول ہیں، طاقتور لوگوں کے لئے اب بھی اور قانون ہے اور عام آدمی کے لئے الگ۔ اعظم سواتی اور ڈی پی او پاکپتن کے واقعات اس کی مثالیں ہیں۔ پولیس میں اب بھی ویسے ہی اپنی مرضی سے سیاسی بھرتیاں کی جاتی ہیں جیسے گذشتہ حکومتوں میں کی جاتی تھیں۔
خان صاحب کے چاہنے والے بھی اب منگو کی طرح بددل ہو گئے ہیں
اس سب کو دیکھ کر عمران خان صاحب کے کئی چاہنے والے منگو تانگے والے کی طرح بد دل ہو گئے ہیں اور ان کے ارمان بھی منگو کے ارمانوں کی طرح خاک میں مل گئے ہیں کیونکہ جس نئے پاکستان کا خواب انہوں نے اپنی آنکھوں میں سجایا تھا وہ نیا پاکستان بن ہی نہیں سکا۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ خان صاحب کے چاہنے والے بھی منگو کی طرح جذباتی تھے اور منگو کی طرح ان کا بھی تاریخ کا مطالعہ کم تھا۔ اس لئے ان کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہوا کہ عمران خان صاحب اور ان کے ساتھی بھی ویسے ہی ہیں جیسے ان سے پہلے تھے۔ اور ان کو بھی اقتدار میں لانے والے وہی لوگ ہیں جو پہلے والوں کو لے کے آئے تھے۔ مگرخان صاحب کے چاہنے والوں نے ایک ایسے انسان کو اپنا مسیحا اور لیڈر سمجھا جس میں ایسی کوئی خوبی تھی ہی نہیں۔ کیونکہ باہر بیٹھ کر سب کو گالیاں دینے اور غلط کہنے سے اور ملک چلانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ شائد خان صاحب اور ان کے چاہنے والوں کو یہ فرق اب سمجھ آگیا ہو۔ جن کو نہیں سمجھ آیا ان کی بھی تسلی بہت جلدی ہو جائے گی۔