جماعت کھڑی ہے کہ اچانک مسجد اور باوضو شدہ لوگوں کی خوبصورت محفل میں 4 مسلح دہشتگرد خودکش جیکٹیں پہنے اندھا دھند فائرنگ اور گرنیڈ پھینکنا شروع کر دیتے ہیں، جس دورانیے میں دہشتگرد 40 معصوم نمازیوں کو شہید کر رہے ہوتے ہیں، ایک گرنیڈ عثمان کی طرف بھی آتا ہے۔ عثمان جس جگہ پر نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہے، وہاں اور کئی لوگوں کو دیکھ کر اس نوجوان کو گرنیڈ پھٹ جانے کی صورت میں کئی اور جانوں کے جانے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ عثمان آگے بڑھا اور گرنیڈ کو ہاتھ میں اٹھا کر آگے کی طرف بھاگ گیا۔ گرنیڈ کی تپش ناقابل برداشت تھی۔ لیکن، عثمان کو ناقابلِ قبول جانی نقصان کے اندیشے کا ادراک تھا۔ اس نے گرنیڈ تھامے رکھا اور کچھ دور جا کے پورے زور سے خالی جگہ کی طرف پھینک دیا۔
گولیوں اور دھماکوں کی گن گرج میں عثمان نے کئی زندگیوں کو بچا لیا۔ لیکن ایک قیمت پر۔ ان چند لمحات کیلئے گرنیڈ کی تپش نے اس کے دائیں بازو کو شدید زخمی کر دیا۔ ہڈیاں ہلنے کے قابل نہ رہیں، کئی جگہ سے گوشت پگھل گیا، اور دایاں بازو کاٹنا پڑا۔ فرسٹ ائیر کی کلاس میں سب سے لائق نوجوان زندگی بھر کیلئے اپنے ایک بازو سے محروم ہو گیا۔
اعتزاز حسن، پرنسپل اے پی ایس پشاور طاہرہ قاضی، ایس ایس پی آپریشنز پنجاب پولیس زاہد گوندل، 179 سپاہی جنہوں نے آپریشن ضرب عضب کے دوران آئی ای ڈی دھماکوں کے بعد بینائی کھو دی، اور کئی اور لاکھوں شیر دل پاکستانی جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر زندگیاں وار دیں اور پاکستان کو اس جنگ کی وادی سے باہر لے آئے جہاں ہمارے بازار، ہسپتال، سکول، مسجدیں، محلے، گلیاں، چوراہوں کو بارود، بربادی اور انتشار سے بھرنے کی کوشش کی گئی۔
کئی منزلیں ابھی طے کرنی ہیں، لیکن لاکھوں امن کے گامے پاکستانی پہلوانوں کی وجہ سے آج چائے کے ڈھابوں سے لے کر جنّت نظیر علاقوں تک میں رونقیں بحال اور آباد ہو چکی ہیں۔ ہماری فضا میں امن کی خوشبو ہے۔ صوفیانہ کلام سے لے کر موسیقی کی خوبصورت دھنیں آج پاکستان نامی باغ میں رس گھول رہیں ہیں۔
پہلوانی کے بڑے داؤ پیچ لگانے کے بعد اس قوم اور ریاست نے امن کی وادی میں قدم رکھا ہے۔ ہمیں اپنی مشقت نہ بھولی ہے نہ بھولے گی، کوئی اور جنگ کی وادی کی طرف بڑھے گا تو اس کو روکیں گے۔ اب امن کی وکالت کریں گے۔