فارس کا مذہب آتش پرستی تھا جبکہ روم جس کا سرکاری مذہب 325 میں شہنشاہ قسطنطین کے مسیحیت قبول کرنے کے بعد عیسائی ہو چکا تھا جس کی وجہ سے چرچ کے مخالف فرقے نیز یہودی پہلے سے رومی حکومت سے ناراض تھے۔ اسی ناراضی پر انہوں نے روم دشمنی میں نئے فاتحین کا ساتھ دیا، اس بغاوت نے خسرو کی کامیابی کو بہت آسان بنا دیا تھا اور خسرو انطاکیہ کو فتح کرتے ہوئے یروشلم پر قابض ہو گیا۔
یوں ایرانی سلطنت کی حدود فرات پار کر کے یکایک وادی نیل تک وسیع ہو گئی۔ فوکاس کی شکست دیکھ کر چند اعیانِ سلطنت نے افریقی مقبوضہ کے رومی گورنر کے یہاں پیغام بھیجا کہ وہ ملک کو بچانے کی کوشش کرے۔ روم کو فوکاس کی نااہلی سے بچانے کے لیے اس نے اپنے بیٹے ہرقل کو اِس مہم پر روانہ کیا۔ ہرقل سمندر کے راستہ سے روانہ ہوا اور یہ ساری کارروائی اس قدر خفیہ اور رازداری کے ساتھ انجام پائی کہ فوکاس کو اُس وقت تک خبر نہیں ہوئی جب تک اُس نے اپنے محل سے سمندر میں آتے ہوئے جہازوں کے نشانات نہیں دیکھ لیے۔ ہرقل نے فوکاس کو قتل کر دیا اور دارالسطنت پر قابض ہو گیا۔ ہرقل نے فوکاس کو تو ختم کر دیا مگر وہ ایرانی بادشاہ کو روکنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ 616 تک وہ رومی دارالسطنت سے باہر اپنی شہنشاہی کا تمام مشرقی اور جنوبی حصہ کھو چکے تھے۔ عراق، شام، فلسطین، مصر، ایشیائی کوچک ہر جگہ صلیبی علم کے بجائے درفش کا قیانی لہرا رہا تھا۔ رومی سلطنت قسطنطنیہ کی چار دیواری میں محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ آتش پرست ایرانیوں نے روم پر قبضہ کرنے کے بعد مسیحیت کو مٹانے کے لئے شدید ترین مظالم شروع کر دیے تھے۔ مذہبی عبادات و رسومات کی توہین شروع کی گئی، گرجا گھر مسمار کیے گئے، تقریباً ایک لاکھ عیسائیوں کو بے گناہ قتل کر دیا گیا۔ ہر جگہ آتش خانے تعمیر کئے گئے اور مسیح کے بجائے آگ اور سورج کی جبری پرتشش کو رائج کیا گیا۔ مقدس صلیب کی اصل لکڑی جس کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ اس پر مسیح نے جان دی تھی، وہ چھین کر مدائن پہنچا دی گئی۔
اگر خسرو کا مقصد صرف فوکاس سے بدلہ لینا ہوتا تو وہ اپنے سسر اور محسن مارکیس کے قاتل فوکاس کو قتل کرنے پر ہرقل کا شکریہ ادا کرتا۔ لیکن اس کے برعکس خسرو فتح کے نشہ میں ڈوب کر اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھنے لگا تھا کہ اس کا اندازہ خسرو پرویز کی طرف سے ہرقل کو بیت المقدس سے لکھے خط سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں لکھا تھا کہ ''سب خداؤں سے بڑا خدا، تمام روئے زمین کے مالک خسرو کی طرف سے اس کے کمینہ اور بے شعور بندے ہرقل کے نام۔ تو کہتا ہے تجھے اپنے خدا پر بھروسہ ہے، کیوں نہ تیرے خدا نے یروشلم کو میرے ہاتھ سے بچا لیا''۔
لیکن جب 6 سال کی لڑائی نے خسرو کو بالآخر کچھ شرائط پر صلح کی طرف مائل کیا تو اس نے شرط پیش کی کہ ''ایک ہزار ٹالنٹ سونا، ایک ہزار ٹالنٹ چاندی، ایک ہزار ریشمی تھان، ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار کنواری لڑکیاں''۔ ہرقل کے پاس وقت کم اور علاقہ محدود تھا جس سے اس نے شرائط کی تکمیل کرنا تھی۔ اس لیے زیادہ ترجیح والی بات یہ تھی وہ انہی ذرائع کو دشمن کے خلاف آخری حملہ کی تیاری کے لئے استعمال کرے۔ اور ہوا بھی یہی ہرقل نے اپنے پاس دستیاب وسائل سے جنگ کی تیاری کی اور خسرو کے غرور اور تکبر کو خاک میں ملانے نکل پڑا۔ ایسی خوفناک جنگ ہوئی کہ وہ خسرو جو اپنے آپ کو مطلق العنان سمجھتا تھا۔ جو سمجھتا تھا اُس کی اجازت کے بغیر اس کی سلطنت میں ہوا تک نہیں ہل سکتا۔ وہ بے یارومددگار ذلیل ہوتا پھر رہا تھا۔ اب پھر سے وہی ایران، نئے دشمن امریکہ سے اپنے جنرل کی موت کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔
بدلہ کی آگ میں ایران، عراق میں امریکی کیمپوں پر میزائل بھی داغ چکا ہے۔ لیکن شاید بدلہ کی آگ میں بھٹکے ہوئے لوگ اپنی ہی تاریخ کا سبق بھول جاتے ہیں کہ بدلہ لینے کے لیے شروع کی گئی مہم اپنا ملک تو تباہ کرواتی ہی کرواتی ہے۔ انسانیت کا شدید ترین اور بدترین نقصان بھی کرواتی ہے۔ میری تجویز ہے کہ بدلہ کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ایران کو ایک دفعہ اپنی پرانی تاریخ ضرور پڑھ لینی چاہیے۔