سیاست کا سعادت حسن منٹو !

03:32 PM, 16 Jan, 2020

رضا ہاشمی
جب سے واوڈا جی نے میز پر بوٹ دھرا ہے تب سے اک طوفان کھڑا ہے۔ ہمارے اینکر حضرات جن کو زعم ہے کہ اللہ نے انہیں آتش فشاں گلے عطا کر رکھے ہیں، تب سے چیخ چیخ کر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ارے واوڈا نے جہوریت کی توہین کر دی۔ دوسرا کہتا ہے کہ ادارہ بدنام ہو گیا۔ تیسرا کہتا ہے کہ واوڈا کو پوچھنے والا کوئی نہیں اور وغیرہ ،وغیرہ۔

سوشل میڈیا پر آ جائیں، ہر کوئی دے دھنا دھن واوڈا جی کی دھلائی میں ایسے مصروف ہے جیسے وہ کوئی شرمسار کرنے والا داغ ہوں۔ اور تو اور اس سب سے گھبرا کر بوٹ والے پروگرام کے میزبان بھی اگر مگر کے پیچھے چھپ کر نیم معافی جیسی توجیحات پیش کرتے دکھائی دیئے۔ کہتے ہیں کہ میں نے پروگرام کے دوران اس حرکت پر رد عمل دینے میں دیر کر دی۔

ٹھیک کہتے ہیں، میرا اپنے بارے بھی یہی خیال ہے کہ میں نے بھی دیر کر دی۔ کافی دیر سوچتا رہا کہ یہ واوڈا جی نے کیا کیا۔ کیا یہ برا ہوا یا اچھا؟ وغیرہ وغیرہ۔ مجھے موصوف سے پہلی بالمشافہ ملاقات یاد آ گئی جو صحافتی ضرورت کے تحت 2019 کے آغاز میں ہوئی۔ تب یہ بطور وزیر پانی و بجلی، واپڈا ہاوس لاہور تشریف لائے تھے۔ اکٹر فوں اور شدید خود پسندی سر سے لے کر پاوں تک عیاں تھی۔ مجھے تب یہ بطور شخصیت سخت ناگوار گزرے تھے لیکن انکی اس بوٹ گردی کو میں کئی بار دیکھا اور سنا ہے۔ اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ واوڈا جی سیاستدانوں کے منٹو ہیں۔

اگر منٹو سیاستدان ہوتا تو فیصل واوڈا ہوتا۔ منٹو اور واوڈا جی میں فرق ہی کیا ہے۔ وہ تمام گھنائونے افعال و اقوال جو معاشرے کے شرفا و زعما عام کرتے مگر انکو بیان کرنے سے کتراتے تھے، منٹو بے باک انداز میں کھول کر رکھ دیتا تھا۔ وہ بتاتا تھا کہ کس طرغ منافقت معاشرے کے ہر طبقے میں چلن بن چکی ہے اور کس طرح یہ خوبصورت چہرے در اصل گھناونے اور  گرے ہوئے کردار ہیں۔

منٹو کا کمال یہ تھا کہ جنسی و مالی استحصال سمیت  دیگر علتیں جن کو روز مرہ زندگی میں روا رکھنا تو معاشرے کو قبول مگر بیان کرنا سخت ناپسند تھا، منٹو ان کا بیچ چوراہے میں خوب ڈھنڈورا پیٹتا۔ منٹو ختنے والے کی دکان کے آگے گھڑیال ٹانگ کر حقیقیت کو کپڑے پہنانے کے خلاف تھا۔ اسنے معاشرے کو جو ہے جیسے ہے، کی بنیاد پر بیان کیا۔

قصہ مختصر، منٹو بھی میز کے پیچھے چھپی حقیقتوں کو ڈھم سے سامنے رکھ دیتا۔ تو واوڈا جی نے کیا مختلف کیا؟ جو حقیقت ہے اسے بے باک انداز میں ڈھم سے میز پر دھر دیا! پھر  بوٹ کی چمک کے پیچھے چاٹنے کے طریقے کو  کڑک دار الفاظ میں بیان کیا۔ جو حقیقت سے  روبرو ہونے پر سنسنی خیز کیفیت منٹو کے افسانے پڑھتے ہوتی ہے وہی واڈا جی کی پرفارمنس پر ہوئی۔

آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ واوڈا جی نے جو کچھ کیا اور کہا کیا قومی اسمبلی میں تمام سیاسی پارٹیاں اسی کی عکاس نہیں ہیں ؟ کیا واوڈا جی نے اسی بات کا بیان براہ راست مثال دیکر نہیں کیا جس پر آپکے اور میرے نمائندگان صبح شام مصروفِ عمل ہیں؟ کیا واوڈا جی کا قصور صرف یہی ہے کہ انہوں نے وہی بیان کیا جو کر سب رہے ہیں۔ بس سننا نہیں چاہتے؟ اگر ان سب  سوالوں کا جواب ہاں میں ہے تو عزیزم ! واوڈا جی سیاست کے سعادت حسن منٹو ہیں۔ بس یوں سمجھیے کہ واوڈا جی کا وہ شو منٹو کا افسانہ ہے جس کا عنوان ہے، بوٹ۔

تو بس عرض یہ ہے کہ واوڈا جی کی دھلائی کی بجائے عزت افزائی کیجئے۔ اور اپنے احوال پر غور کیجیے
نوٹ :  منٹو سے مماثلت کے بعد آج سے فیصل واوڈا کو مصنف کی طرف سے واوڈا جی لکھا اور پکارا جائے گا۔ جس ادارے یا شخص کو اعتراض ہو وہ اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شئیر کرے۔
مزیدخبریں