”مالی سال 2023-24 کے دوران کل فعال انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد 4.74 ملین اور سیلز ٹیکس رجسٹرڈ فائلرز کی تعداد 234,193 رہی “۔ سالانہ کارکردگی رپورٹ (2023-24)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو”براہ راست ٹیکسز جوکہ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کے لیے بنیادی محصولات کی حیثیت رکھتے ہیں، مالی سال 2023-24 میں جمع کیے گئے کل ٹیکس کا تقریباً %48.7 ہیں۔ براہ راست ٹیکسزکی خالص وصولی 4,531 بلین روپے تھی ، جو پچھلے مالی سال کے3,271 بلین روپے کے مقابلے میں 38.5 فیصد کے نمایاں اضافے کی مظہرہے۔ریونیو ڈویژن 2024 ایئر بک فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے جاری کردہ دو حالیہ ، اوپر حوالہ دی گئیں ، رپورٹس نے ایک بار پھر کسی شک و شبہ سے بالاتر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وفاقی سطح پر ریونیو اکھٹا کرنے والی اعلیٰ ترین ٹیکس اتھارٹی، نا اہلی، بدعنوانی، بے ضابطگی اور بدعنوانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تازہ ترین اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایف بی آر تقریبا ایک بلین ڈالرز کے بیرونی قرضے اصلاحات کے نام پر لینے کے باوجود تمام محاذوں پر ناکام رہا ہے، وصولی کے اہداف، واجب الادا رقم کی واپسی، ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا، ٹیکس چوری کی روک تھام، بقایا جات کی وصولی، قوانین کی رضاکارانہ تعمیل، اصلاحات کا عمل اور کیا کچھ نہیں!
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایف بی آر نے ٹیکس ایڈمنسٹریٹو ریفارمز پروگرام (TARP) اور پاکستان ریز ریونیو (PRR) پراجیکٹ کے تحت لاکھوں ڈالر کے ادھار فنڈز کو بے رحمی سے ضائع کیا، لیکن 20 ملین ممکنہ انکم ٹیکس دہندگان کو رضاکارانہ طور پر ڈیکلریشن فائل کرنے پر آمادہ نہیں کر سکا۔ اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ (2023-24) میں، ایف بی آر نے 30 جون 2024 تک کل رجسٹرڈ انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد 13,446,015 ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جب کہ مالی سال 2023-24 کے دوران اسی رپورٹ کے مطابق فعال انکم ٹیکس دہندگان صرف 4,738,595 تھے! یہاں تک کہ آج مورخہ16 جنوری 2025 ،تادم تحریر ، فعال انکم ٹیکس دہندگان کی کل تعداد 60 لاکھ ہے اور اس میں سے 70 فیصد نے قابل ٹیکس آمدنی ظاہر نہیں کی۔ ایف بی آر کے اپنے ڈیٹا کے مطابق انکم ٹیکس رجسٹرڈ اور فائلرز کا فرق 70 لاکھ ہے!!
واضح رہے کہ چند ماہ قبل (16 اکتوبر 2024) راشد محمود لنگڑیال، موجودہ چیئرمین ایف بی آر، جنہیں ٹیکس انتظامیہ اور پالیسی کا کوئی تجربہ نہیں ، نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں کل رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد صرف 40 لاکھ ہے۔ انہوں نے سالانہ کارکردگی رپورٹ (2023-24) کا تعارف (ممکنہ طور پر پیش کئے گئے مسودے پر چند تبدیلیوں کے ساتھ دستخط اور رسمن منظوری دی ہوگی) لکھا ہے۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 30 جون 2024 تک پاکستان بھر میں رجسٹرڈ انکم ٹیکس دہندگان کی کل تعداد، 3,574,269 نئے ٹیکس دہندگان کے اضافے کے ساتھ، 13.466 ملین تک پہنچ گئی تھی (جدول 6 ، ایف بی آر سالانہ کارکردگی رپورٹ (2023-24)۔
حیرت ہے کہ چیئرمین ایف بی آر نے 16 اکتوبر 2024 کو کراچی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے سامنے اپنے خطاب میں سالانہ کارکردگی رپورٹ میں درج اتنی بڑی تعداد کو کیسے نظر انداز کر دیا! یہ رپورٹ خطاب سے پہلے انہوں نے خود اپنے پیش لفظ کے ساتھ جاری کی تھی! آج تک چیئرمین محترم نے ایف بی آر کے اندر اپنی ٹیم اور دفاتر میں افسران سے نہیں پوچھا کہ 13,446,015 رجسٹرڈ انکم ٹیکس دہندگان میں سے تا وقت تمام فعال افراد، جن میں کمپنیز اور شراکت دار افراد (firms etc) بھی شامل ہیں، کی تعدادمحض 60 لاکھ کیوں ہے، اور کیا وجہ ہے کے ان میں سے 200 ملین روپےسے زائد آمدنی والے گوشوارے صرف 2 لاکھ کے لگ بھگ ہی ہیں!
عجیب بات یہ ہے کہ 26 دسمبر 2024 کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ ٹیکس قوانین (ترمیمی) بل2024 ، جسے قومی اسمبلی میں18 دسمبر 2024 کو پیش کیا گیا اورجس میں بہت سی غیر آئینی دفعات شامل ہیں ، سے صرف 5 سے 10 فیصد پاکستانی ہی متاثر ہوں گے ۔
بدقسمتی سے 8 اگست 2024 سے چیئرمین ایف بی آر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے مختلف خطابات میں محترم راشد محمود لنگڑیال نے الزام لگایا ہے کہ ’’پاکستان کی 90 فیصد آبادی ٹیکس ادا نہیں کرتی‘‘۔ یہ بیان ان حقائق کے منافی ہے جو ان کالموں میں کثرت سے اجاگر کیے گئے ہیں اور اب ایف بی آر کی دو حالیہ سرکاری اشاعتوں، یعنی سالانہ کارکردگی رپورٹ (2023-24) اور ریونیو ڈویژن کی 2024 ایئر بک میں اس کی تردید کی گئی ہے۔ ایک حالیہ مضمون میں اس پر روشنی ڈالی گئی۔
وزارت خزانہ کی طرف سے قومی اسمبلی کے سامنے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پاکستان میں موبائل صارفین سے ایڈوانس ایڈجسٹ ایبل انکم ٹیکس کے طور پر کھربوں روپے ہڑپ کرنے کا انکشاف بہت سے لوگوں کے لیے چونکا دینے والا ہو سکتا ہے۔ تاہم ان کالموں میں بار بار اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غریب سے غریب طبقے کو اس طرح کے خوفناک اور جابرانہ ٹیکس نظام کی مدد سے بد ترین استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جبکہ ملیٹرو جوڈیشل سول کمپلیکس کے امیر اور طاقتور ارکان کی ایک قلیل تعداد بے مثال ٹیکس چھوٹ، مراعات اور چھوٹ سے لطف اندوز ہو رہی ہے!
چیئرمین ایف بی آر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے اپنی بریفنگ میں اس بات کا تذکرہ کرنے میں ناکام رہے کہ نان فائلرز کی اکثریت معاشرے کے اعلیٰ امیر یافتہ طبقے سے تعلق رکھتی ہے، جس میں 50 فیصد سے زائد سرکاری ملازمین ، بشمول ایف بی آر کے افسران/ اہلکار، جوقابل ٹیکس آمدنی حاصل کر رہے ہیں، اور اس میں سینکڑوں منتخب افراد بھی شامل ہیں۔
ایف بی آر نہ صرف 30 ٹریلین (جی ڈی پی کا %15، اگر غیر رسمی معیشت کو بھی شامل کیا جائے) روپے کی اصل ٹیکس استعداد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے ، غلط ٹیکس پالیسی مرتب کرنے کی وجہ سے ٹیکس کا حقیقی بوجھ امیروں سے غریب طبقات پر منتقل کرنے کا بھی قصوروار ہے۔ یہ حکمران اشرافیہ ناقابل تسخیر ملیٹرو جوڈیشل سول کمپلیکس، بدعنوان سیاستدانوں اور لالچی تاجروں اور ٹیکس چوروں —کے مفادات کی خدمت اور تحفظ کر رہا ہے ۔
آئیے ایک بار پھر پاکستان کی انکم ٹیکس کی بنیاد کا دستیاب سرکاری اعداد و شمار سے تعین کرنے کی کوشش کریں۔
2023 کی سرکاری مردم شماری کے مطابق، ہماری کل قومی آبادی 241,499,431 تھی، جو آج لائیو مانیٹرنگ کے ذریعے (16 جنوری 2024 کو صبح 11:25 بجے) 253,416,761 ہے۔ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کی آبادی تقریباً %35 ہے جبکہ %4 لوگ 65 سال سے اوپر کے ہیں۔ کل آبادی میں سے 30 ملین غربت کی لکیر سے نیچے ہیں جو روزانہ دو ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2024 کے مطابق 2023 میں ہماری لیبر فورس تقریباً 72 ملین تھی اکثریت [48.5%] دیہی علاقوں میں جنہوں نے قابل ٹیکس آمدنی سے کم کمایا یا زرعی آمدنی حاصل کی جو انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے دائرہ کار سے باہر تھی۔
مندرجہ بالا تمام اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے، انکم ٹیکس کے ذمہ دار اور ٹیکس سال 2024 کے لیے ریٹرن فائل کرنے کے اہل افراد کی تعداد 20 ملین سے زیادہ نہیں ہو سکتی ۔ تاہم، 120 ملین منفرد موبائل صارفین (30 جون 2024 تک کل سبسکرائبرز 193 ملین تھے) نے %15 ایڈوانس/ایڈجسٹ ایبل انکم ٹیکس ادا کیا، حالانکہ ایف بی آر کی کارکردگی رپورٹ کے مطابق ریٹرن فائلرز 4.74 ملین رہے ،جن میں سے صرف 20 لاکھ کے قریب نے قابل ٹیکس آمدنی ظاہر کی ۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے مطابق، 16 جنوری 2025 کو 35 : 11 بجے رسائی حاصل کی گئی، 30 نومبر 2024 تک کل سیلولر/براڈ بینڈ صارفین کی تعداد 193 ملین (%79.10 موبائل ڈینسٹی)، 139 ملین موبائل براڈ بینڈ صارفین (%56.90 موبائل براڈ بینڈ) تھے۔ ، 3 ملین فکسڈ ٹیلی فون صارفین (%1.10 فکسڈ ٹیلی ڈینسٹی) اور 143 ملین براڈ بینڈ سبسکرائبرز (%58.39 براڈ بینڈ رسائی) تھے۔
مندرجہ بالا اعداد و شمار کسی شک و شبہ سے بالاتر ثابت کرتے ہیں کہ یکم جولائی 2024 سے پری پیڈ یا پوسٹ پیڈ موبائل/براڈ بینڈ/انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد، جو پوری قابل ٹیکس آبادی اور یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جن کی کوئی قابل ٹیکس آمدنی نہیں یا حد سے کم ہے، بطور فائلرز ایڈوانس اور ایڈجسٹ %15 انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں، اور ان کی صورت میں جن کا ذکر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن B 114 کے تحت جاری کردہ عام حکم میں ہے پر %75 پیشگی انکم ٹیکس کا اطلاق ہو رہا ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں بائیو میٹرک تصدیق شدہ موبائل کنکشن رکھنے والے تمام بالغ افراد انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں، چاہے وہ قابل ٹیکس آمدنی حاصل کرتے ہوں یا نہیں! اگر سب یعنی 120 موبائل/براڈ بینڈ/انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد ریٹرن فائل کرتے ہیں تو کم از کم 100 ملین ریفنڈز کے حقدار ہوں گے۔ تاہم، یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ 16 جنوری 2025 کو صبح 12:30 بجے تک ایف بی آر کی ویب سائٹ پر فعال 6 لاکھ انکم ٹیکس دہندگان میں سے قابل ٹیکس آمدنی یا قابل قدر ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی کل تعداد 20 لاکھ سے زیادہ نہیں تھی ۔
اب وقت آگیا ہے کہ ایف بی آر اپنی ویب سائٹ پر انکم ٹیکس فائلرز کا ڈیٹا اور نئے فائلرز کے گوشوارے کے ساتھ برائے ٹیکس سال 2024 میں کتنا ٹیکس وصول کیا گیا، شائع کرے تا کہ عوام کو یہ معلومات دستیاب ہوں ۔ ایف بی آر کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ مالی سال 2024 کے دوران صرف 4.74 ملین فعال ٹیکس دہندگان کیوں تھے، جب کہ اس کی اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق کل رجسٹرڈ انکم ٹیکس افراد کی تعداد 13.466 ملین تھی۔
اس بات پر زور دینے کی ضرورت نہیں کہ یہ آئین کے آرٹیکل A19 کے تحت ایف بی آر کی ذمہ داری ہے، جس میں لکھا ہے:”ہر شہری کو عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات تک رسائی حاصل کرنے کا حق ہوگا ضابطے اور قانون کی طرف سے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع“۔
ایف بی آر کی طرف سے شائع کردہ تازہ ترین اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ٹیکس سال 2024 کے لیے ٹیکس دہندگان کی پوری آبادی کے بہت ہی قلیل حصہ نے ٹیکس ریٹرن فائل کیے ہیں۔ ریونیو ڈویژن 2024 ایئر بک کے مطابق مالی سال 2024 کے دوران 2.740 ٹریلین روپے کی پیشگی رقم (کل انکم ٹیکس وصولی کا %60) مختلف ودہولڈنگ دفعات(65 سے زیادہ) کے تحت حاصل کیے گئے تھے۔
سالانہ کارکردگی رپورٹ (2023-24) میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مالی سال 2024 کے دوران، فیلڈ فارمیشنز نے 4,738,595 نئے انکم ٹیکس دہندگان کو رجسٹر کرنے میں کامیابی حاصل کی! یہ کیسے ہوا کہ 30 جون 2024 تک 13,446,015 کل رجسٹرڈ انکم ٹیکس دہندگان میں سے صرف 4.74 ملین ایکٹو ٹیکس دہندگان کی فہرست (ATL) میں تھے اور یہ تعداد اس مضمون کے لکھنے کے وقت 16 جنوری کو بھی صرف 60 لاکھ کے لگ بھگ ہے! برائے ٹیکس سال 2024 انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی تاریخ کو گزرے کافی ماہ ہو چکے ہیں ۔
ایف بی آر کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق انکم ٹیکس ریٹرن فائلرز اور رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان میں 7.4 ملین اور ممکنہ 20 ملین انکم ٹیکس دہندگان کے مطابق 14 ملین کا بڑا فرق ہے۔ یہ نا قابل تردید حقیت چیئرمین ایف بی آر کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر خزانہ و محصولات اور وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات کی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ اگر ٹیکس قوانین (ترمیمی) بل 2024 قومی اسمبلی کے 13 جنوری 2025 سے شروع شدہ اجلاس میں منظور کر لیا جاتا ہے، جو 29 دسمبر 2024 کو سینیٹ سے پہلے ہی منظور ہو چکا ،تو کیا تبدیلی رو نما ہو گی ۔ فرض کریں ایف بی آر سخت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے، تمام موبائل/براڈ بینڈ/انٹرنیٹ صارفین کو انکم ریٹرن فائل کرنے پر مجبور کر بھی لے ، تو نتیجہ واضح ہوگا: ا یف بی آر کو ان لوگوں کو اربوں روپے کی واپسی کرنی ہو گی جو کوئی آمدنی نہیں رکھتے یا قابل ٹیکس حد سے کم آمدنی رکھتے ہیں اور ان کی تعداد 100 ملین سے کم نہیں۔یہ تمام افراد پیشگی انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور اس کی واپسی کا مطالبہ بھی نہیں کرتے!
لاکھوں نوجوان موبائل صارفین، جو والدین کے زیر کفالت ہیں، کوئی قابل ٹیکس آمدنی نہیں کماتے ہیں مگر پیشگی انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں ۔ پاکستانیوں کی بھاری اکثریت، تقریبا 120 ملین بالغ افراد باحثیت موبائل/براڈ بینڈ/انٹرنیٹ صارفین ایڈوانس ایڈجسٹ ایبل انکم ٹیکس ادا کر رہی ہے اگرچہ ان کی آمدنی نہیں یا قابل ٹیکس حد 600,000 روپے سے کم ہے۔ وہ قانونی طور پر ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے پابند نہیں۔ اگر وہ پیشگی ادا کیے ہوئے انکم ٹیکس کی واپسی کےلیے گوشوارہ جمع کروائیں تو روکی گئی رقم سے کہیں زیادہ لاگت آئے گی اور ریفنڈ کے حصول کے لیے الیکٹرانک طور پر علیحدہ درخواست دائر کرنی پڑتی ہے بہت سے ناخواندہ پاکستانیوں کے لیے، ایف بی آر کی جانب سے ایسی شرائط عائد کی جاتی ہیں ، جو کہ انتہائی افسوسناک ہیں۔
اس کے برعکس، امیر اور طاقتور کی اکثریت اپنی بے پناہ آمدنی/دولت پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے ذریعے انکم ٹیکس کا ایک قلیل حصہ ادا کرتی ہے۔ وہ کبھی بھی آمدنی کے گوشوارے اور دولت کے گوشوارے داخل کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔
گزشتہ چھ ٹیکس سالوں 2018 اور 2024 کے لیے (جس کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 میں فراہم کردہ حد کے تحت نوٹس جاری کیے جا سکتے ہیں) اراکین پارلیمنٹ، ججز اور اعلیٰ عہدے کے سول ملٹری بیوروکریٹس اور ان کے زیر کفالت افراد جن کے نام اثاثے یا بے نامی رکھے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایف بی آر کے بہت سے افسران، ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹس فائل کرنے میں ناکام رہے ہیں، مگر تا حال ان کو نوٹس جاری نہیں ہوئے!
ایف بی آر کو مندرجہ بالا حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں خود تلاشی اور خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ اسے اپنی ویب سائٹ پر اراکین پارلیمنٹ ،ججوں، جرنیلوں اور اعلیٰ درجے کے سرکاری اور فوجی ملازمین سے متعلق ڈیٹا رکھنا چاہیے جس میں یہ دکھایا جائے کہ پچھلے دس سالوں میں ریٹرن کے ساتھ کتنا ٹیکس ادا کیا گیا، اس کے ساتھ ٹیکس سے مستثنیٰ مراعات اور فوائد کی اصل مالی قیمت کیا تھی۔
آئین کے آرٹیکل A19 کے تحت قوم کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ پچھلے 20 سالوں کے دوران پاکستان کے ایک فیصد امیر یعنی ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس، ارکان پارلیمنٹ، سیاستدانوں، پیشہ ور افراد، صنعت کاروں اور تاجروں نے کتنا ٹیکس ادا کیا اور کتنی ٹیکس سے مستثنیٰ مراعات حاصل کیں۔مذکورہ بالا اعداد و شمار، جن کا حوالہ دیا گیا ہے اور بہت سے دوسرے مضامین ، ایف بی آر کی غیر موثریت اور نااہلی کی تصدیق کرتے ہیں۔
تقریباً 120 ملین افراد ذرائع پر پیشگی انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں، لیکن امیر اور طاقتور لوگ اپنی بے پناہ آمدنی اور اثاثوں اور ’’ادائیگی کی اہلیت‘‘ کے اصول پر ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں۔ اس نے ہمارے ٹیکس کی بنیاد کو مسخ کر دیا ہے۔
مروجہ نظام ، ٹیکس سے بچنے والوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس کے علاوہ ، معافیوں، رعایتوں اور استثنیٰ کے ذریعے چار ارب روپے کے محصولات کو ضائع کر دیتا ہے۔ اس کے لئے زیادہ تر وقت ایس آر اوز (قانونی ریگولیٹری آرڈرز) کے آلہ کو استعمال کیا جاتا ہے۔
اصلاحی اقدامات کے لیے جامع روڈ میپ (Towards Broad, Flat, Low-rate and Predictable Taxes )Prime, October 2024))کی شکل میں موجود ہے۔ لیکن پارلیمنٹ میں منتخب اراکین کے پاس جابرانہ اور ترقی مخالف ٹیکس نظام کو ٹھیک کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کا وقت نہیں ہے۔ ان کی ترجیحات یہ ہیں کہ کس طرح اپنے مفادات کا تحفظ کیا جائے اور بندوق کے زور پر حقیقی طاقت رکھنے والوں کے کہنے پر آپس میں لڑ کر جمہوری اداروں کو کمزور کیا جائے ۔ وہ ان طاقتوروں کے غلام ہیں جو اپنے ہی لوگوں کو محکوم بنانے میں یقین رکھتے ہیں۔
ایف بی آر کی مسلسل مایوس کن کارکردگی
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایف بی آر نے ٹیکس ایڈمنسٹریٹو ریفارمز پروگرام (TARP) اور پاکستان ریز ریونیو (PRR) پراجیکٹ کے تحت لاکھوں ڈالر کے ادھار فنڈز کو بے رحمی سے ضائع کیا، لیکن 20 ملین ممکنہ انکم ٹیکس دہندگان کو رضاکارانہ طور پر ڈیکلریشن فائل کرنے پر آمادہ نہیں کر سکا،اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ (2023-24) میں، ایف بی آر نے 30 جون 2024 تک کل رجسٹرڈ انکم ٹیکس دہندگان کی تعداد 13,446,015 ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جب کہ مالی سال 2023-24 کے دوران اسی رپورٹ کے مطابق فعال انکم ٹیکس دہندگان صرف 4,738,595 تھے
02:56 PM, 16 Jan, 2025