سلمان احمد کو تو سوشل میڈیا پر لوگوں نے خوب شرم دلائی لیکن انہوں نے اس تصویر کو تلف کرنا غالباً اپنی مردانگی کے خلاف سمجھا۔ گو کہ ہمیں یقین ہے کہ اتنی سخت سست سننے کے بعد کوئی بھی شخص اپنے عمل پر نظرِ ثانی ضرور کر لیتا ہے۔ تاہم، یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی پاکستانی سیاستدان نے ایسی حرکت کی ہو۔ ماضی میں پیپلز پارٹی رہنما خورشید شاہ، وزیر پلاننگ اسد عمر اور خود وزیر اعظم عمران خان بھی اس قسم کے کلمات ادا کرتے پائے گئے ہیں جو ان کی زن بیزاری کو ظاہر کرتے ہیں۔ ذیل میں ایسے ہی چند واقعات کا ذکر کیا جا رہا ہے:
عمران خان نے بلاول کے ساتھ ’صاحبہ‘ کا لاحقہ لگایا
اپریل 2019 میں جنوبی وزیرستان کے علاقے سپنکئی راغزئی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے بلاول بھٹو زرداری کو بلاول بھٹو صاحبہ کہہ کر پکارا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بلاول بھٹو صاحبہ کی طرح میں کوئی کاغذ کی پرچی پر نہیں آیا تھا کہ جی مجھے والدہ نے جائیداد میں پارٹی دے دی ہے۔ میں محنت کر کے آیا تھا‘‘
https://www.youtube.com/watch?v=m8ZaluAolj4
اسد عمر کے خیال میں نر کا بچہ ہونا بہادری کی علامت ہے
مارچ 2019 میں اسد عمر نے جو کہ اب وزیر منصوبہ بندی و ترقی ہیں نے پارلیمنٹ میں بلاول بھٹو کی دھواں دھار تقریر کا جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو کا ’بھٹو‘ کا لفظ اپنے نام کے ساتھ لگانے پر تمسخر اڑایا۔ انہوں نے کہا کہ بلاول ’زرداری‘ ہیں اور اپنی والدہ کے قبیلے کا نام اپنے نام کے ساتھ لگا لینے سے وہ بھٹو نہیں بن جائیں گے۔
بلاول نے اس تقریر میں دہشتگردی پر حکومت کی کمزور پالیسی پر بات کی تھی تو اس پر اسد عمر نے بلاول پر ’بھارتی بیانیہ‘ دہرانے کا الزام لگاتے ہوئے انہیں ’غیر محب وطن‘ قرار دیا، اور پھر لیاری میں بلاول کی الیکشن میں شکست پر ان کو طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے ایک ورکر نے بلاول کو ہرا دیا، اور وہ ’نر کا بچہ‘ یعنی ایک مرد کا بچہ تھا، گویا مرد کا بچہ ہونا کوئی بہادری کی دلیل ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=EWCyY_xRhmw
خورشید شاہ کا خواتین پارلیمنٹیرینز پر جملہ
اپریل 2017 میں خورشید شاہ نے خواتین پارلیمنٹیرینز سے متعلق جملہ کسا۔ اس وقت سپیکر ایاز صادق خواتین ممبران کو خاموش ہو کر خورشید شاہ کی بات پر توجہ دینے کے لئے کہہ رہے تھے تو خورشید شاہ نے انہیں کہا کہ انہیں مت روکیں، ’’خواتین بات نہیں کریں گی تو بیمار ہو جائیں گی‘‘، جس پر ایاز صادق نے انہیں فوراً ٹوکتے ہوئے کہا کہ یہ جملہ ان کے لئے ناقابلِ قبول ہے۔
’عورتوں کی طرح نعرے لگاتے ہیں‘
2017 میں سابق فوجی آمر جنرل مشرف جو کہ غداری کے مقدمے سے بھاگ کر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے ہیں، ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران بلاول بھٹو زرداری پر ایسے ہی دقیق حملے کرتے پائے گئے۔ بینظیر بھٹو قتل کیس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلاول عورتوں کی طرح نعرے لگاتا رہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے اس کو کہو کہ مردوں کی طرح بات کرے۔
یاد رہے کہ ماضی میں جنرل مشرف نے جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی مختاراں مائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھی کہا تھا کہ پہلے آپ پاکستان کے حالات کو سمجھیں۔ یہ پیسے کمانے کا ایک طریقہ بن گیا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اگر باہر جانا چاہتے ہو، کینیڈا کی شہریت چاہیے اور امیر ہونا ہے تو اپنے ساتھ جنسی زیادتی کروا لو۔ یہ بات انہوں نے 2005 میں بطور صدرِ پاکستان امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔
شاہزیب خانزادہ کا مصطفیٰ کمال کو کرارا جواب
نومبر 2017 میں پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کو شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں ایک زن بیزار جملہ انتہائی مہنگا پڑ گیا۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے سابق کنوینر فاروق ستار کا مذاق اڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا عورتوں کی طرح رونا دھونا، چوڑیاں توڑنا، چیل کی طرح چلانا، لیکن انہیں شاہزیب خانزادہ نے یہیں پر روکتے ہوئے کہا تھا کہ مداخلت کے لئے معذرت لیکن خواتین کے بارے میں اس طرح بات کرنا کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے۔ خواتین معاشرے کا ایک طاقتور طبقہ ہیں۔ ان کے بارے میں اس طرح بات کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے بس اتنا ہی کہنا تھا، آپ اپنی بات جاری رکھیے۔
شیخ رشید خواجہ سراؤں اور خواتین سے متعلق بارہا اخلاق سے گرے ہوئے جملے استعمال کرتے ہیں
پاکستان کے وزیر برائے ریلوے شیخ رشید بھی پیپلز پارٹی سربراہ کے خلاف اپنی زن بیزاری کو ثابت کرنے والے جملے کہتے رہے ہیں۔ اپریل 2019 میں شیخ رشید نے کہا تھا کہ بلاول میں فنی خرابی ہے۔ انہوں نے اپنے اس جملے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلاول کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دور سے پرویز لگتا ہے لیکن اصل میں پروین ہے۔
یہ جملے ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں سیاستدانوں میں زن بیزاری کا مسئلہ کتنا شدید ہے اور انہیں اس سلسلے میں کس قدر تعلیم کی ضرورت ہے۔