عالیہ مرزا نے
زیاں اور خفت کے احساس سے
ایک مغموم ساعت میں جب یہ کہا
"میں خواب رکھ کر بھول گئی ہوں"
تو بے ساختہ میں نے خود کو ٹٹولا
مرا خواب
مرا بھی تو کوئی خواب تھا
وہ کہاں ہے؟
سو بے ساختہ ساری جیبیں تلاشیں
جرابوں کو الٹا
میرے پاس پچھلے زمانوں کے متروک سکے تھے بس!
اور گھر میں کوئی خواب رکھ کر بھلانے کے لائق جگہ بھی نہیں تھی
فقط اک خلا تھا
یونہی بے خیالی میں میں نے خلا میں بھی جھانکا
مگر ہنس دیا
خلا میں بھلا خواب کیسا؟
"تو پھر خواب میرا کہاں ہے؟"
تبھی یاد آیا
میرا خواب تو آنکھ کی سوختہ کوکھ میں
کب کر جل کر فنا ہوچکا ہے
سو میں شانت ہوں کہ
مرے پاس
کھونے کو کچھ بھی نہیں ہے
فقط اک خلا ہے