تفصیلات کے مطابق مجرم نے اگست 2018 میں سوشل میڈیا پر توہین آمیز پوسٹس شیئر کیں اور ایسے اقدامات مسلسل کر رہا تھا ۔ مجرم کے خلاف محمد سعید نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں انسداد دہشت گردی، توہین رسالت 295 اے، 295 بی اور سائبر کرائم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرایا تھا۔
مجرم کو دہشت گردی کے جرم میں عمر قید، توہین رسالت جرم میں 20 سال قید اور 295 بی کے تحت بھی 3 سال قید سخت کی سزا سنائی گئی اور مجموعی طور پر 10 لاکھ 50 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔ عدالت نے فیصلہ میں قرار دیا مجرم نے گھناؤنا جرم کیا ہے اسے کسی بھی قسم کی رعایت نہیں دی جاسکتی ، مجرم کی سزا میں کمی کی استدعا بھی مسترد کر دی گئی ۔ اسے پولیس کی بکتر بند گاڑی میں جیل سے عدالت پیش کیا گیا اور سزا کے بعد اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔
پاکستان کے قانون میں توہین مقدسات پر سزا
تعزیرات پاکستان میں ایک آئینی شق 295 اور 298 کو قانون توہین رسالت کہا جاتا ہے۔جن میں سےایک شق 295 (سی) کے تحت سنگین گستاخی کی سزا موت مقرر کی گئی ہے۔295a کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کو جذباتی اذیت پہنچانے کی سزا کا تعین کرتے ہیں جو دس سال تک ہوسکتی ہے۔ اسی طرح 295b قرآن کریم کی بے حرمتی اور 295c رسول اللہ (ص) کی گستاخی کی سزا مقرر کرتی ہے۔اس کے تحت "پیغمبر اسلام کے خلاف تضحیک آمیز جملے استعمال کرنا، خواہ الفاظ میں، خواہ بول کر، خواہ تحریری، خواہ ظاہری شباہت/پیشکش،یا ان کے بارے میں غیر ایماندارنہ براہ راست یا بالواسطہ سٹیٹمنٹ دینا جس سے ان کے بارے میں بُرا، خود غرض یا سخت تاثر پیدا ہو یا انکو نقصان دینے والا تاثر ہو یا ان کے مقدس نام کے بارے میں شکوک و شبہات و تضحیک پیدا کرنا، ان سب کی سزا عمر قید یا موت اور ساتھ میں جرمانہ بھی ہوگا۔"