پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازہ خان کی تحصیل تونسہ سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار 2018ء میں پہلی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کا تعلق بزدار قبیلے سے ہے۔
2018 کے عام انتخابات سے قبل انہوں نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شمولیت اختیار کی، تاہم انتخابات سے قبل خسرو بختیار کی سربراہی میں بننے والا یہ گروپ تحریک انصاف میں ضم ہوگیا۔
سردار عثمان بزدار کے والد سردار فتح محمد خان اپنے قبیلے کے سردار تھے، وہ تین مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہوں نے ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
عثمان بزدار نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر کیا اور وہ 2008 تک مسلم لیگ ق کے تحصیل ناظم رہے۔
2008 میں انہوں نے مسلم لیگ ق چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن میں حصہ لیا، تاہم وہ ناکام رہے۔
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں متعدد بار یہ دعویٰ کیا تھا کہ عثمان بزدار سے اچھا کوئی نہیں، ان سے بہتر وزیراعلیٰ پنجاب کو مل ہی نہیں سکتا۔ صرف یہی نہیں انہوں نے بڑی بھڑک مارتے ہوئے انھیں وسیم اکرم پلس تک قرار دیدیا تھا۔
عثمان بزدار اور ان کے فرنٹ مینوں کے خلاف شواہد وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی ارسال کر دیئے گئے ہیں۔ پنجاب حکومت نے سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی گرفتاری کے لئے لاہور ہائیکورٹ میں شواہد دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
سماء نیوز کی رپورٹ کے مطابق عثمان بزدار کے پھوپھا امیر تیمور کیخلاف بھی کرپشن اور کک بیکس کے مزید شواہد حاصل کر لیے گئے ہیں، جب کہ نیب اوراینٹی کرپشن نے بزدار کی اربوں روپے کی انویسٹمینٹ کے شواہد بھی حاصل کرلیے ہیں، اور رپورٹس کی بنیاد پر بزدارسرکار کے خلاف کاروائیاں تیز کردی گئی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب کے فرنٹ مین کے طور پر محکمہ آبپاشی کے ایکسین عظیم بلوچ کا نام بھی سامنے آیا ہے، جب کہ عثمان بزدارکے سابق اسٹاف افسران کا بزدار اور فرح خان کے حوالے سے چشم کشا انکشافات کئے جانے کا بھی امکان ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت پنجاب کو سابق وزیراعلی پنجاب کے دو فرنٹ مینز سے اہم شواہد موصول ہوئے ہیں، اور ان فرنٹ مینوں کے نام پر بینک اکاؤنٹس کا بھی انکشاف ہوا ہے۔