تفصیل کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ میں گذشتہ روز سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی خبریں اور ویڈیوز گردش کر رہی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ضلع میں ایک جرگے کی جانب سے خواتین کی سیاحتی مقامات پر جانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق باجوڑ کی تحصیل سلارزئی میں گرینڈ جرگے نے خواتین کے سیاحتی مقامات جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ باجوڑ کے ایک مقامی صحافی نے نیا دور میڈیا کو تصدیق کی ہے کہ گذشتہ روز ہونے والے جرگے میں یہ متفقہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آج کے بعد کوئی خاتون سیاحتی مقام پر نہیں جائے گی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ خواتین مردوں کے ساتھ بھی کسی سیاحتی مقام پر نہیں جا سکیں گی۔
جرگے میں خواتین کی سیاحتی مقامات پر جانےکی پابندی کا اعلان جرگے میں شامل سابق سینیٹر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) باجوڑ کے امیر مولانا عبدالرشید کی جانب سے کیا گیا ہے۔
مولانا عبدالرشید نے کہا کہ سلارزئی قبیلے کی تمام اقوام کی جانب سے ایک جرگہ تشکیل دیا گیا ہے جس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ سیاحتی مقامات پر خواتین کو لانا اور مردوں کے ساتھ گھومنا ہماری روایات کے خلاف ہے اور جرگہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آج کے بعد سیاحتی مقامات پر خواتین کے جانے پر پابندی ہوگی۔
انھوں نے مزید کہا کہ سیاحت کے نام پر فحاشی کو فروغ دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جرگہ ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ کل سے سیاحتی مقامات پر خواتین کے جانے پر پابندی عائد کی جائے ورنہ پھر مقامی لوگ مجبور ہو کر اس پر پابندی عائد کریگی۔
ضلع باجوڑ کے پولیس ڈی پی او عبدالصمد سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ باجوڑ ایک قبائلی ضلع ہے جہاں پر خواتین کم تعداد میں باہر نکلتی ہے لیکن اگر کوئی خاتون سیاحتی مقام یا بازار میں آئے گی تو پولیس اُن کو تحفظ فراہم کریگی۔
انھوں نے مزید کہا کہ کسی جرگے کو اجازت نہیں کہ وہ قانون ہاتھ میں لے کر فیصلے کرے کیونکہ یہاں ریاستی ڈھانچہ موجود ہے اور تمام حکومتی ادارے بھی موجود ہیں اور فیصلے کرنا اُن کا کام ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے سیاحتی مقامات اور بازاروں میں جانے پر کوئی پابندی عائد نہیں کرسکتا لیکن اگر مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں پر فحاشی پھیلتی ہے تو فحاشی روکنا پولیس کا کام ہے اور پولیس ہر قسم کی فحاشی کو روکے گی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہر کس قسم کی فحاشی کو پولیس روکے گی سیاحتی مقامات پر گرل فرینڈز لانا، بوسے لینے اور دینے اور گلے لگانے کی پولیس اجازت نہیں دیگی۔
واضح رہے کہ باجوڑ میں ماضی میں بھی جرگوں کی جانب سے ایسے اعلانات سامنے آئے تھے۔ باجوڑ میں جرگے کے اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہے۔ کچھ لوگ اس کی حمایت تو کچھ لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
باجوڑ کی ایک خاتون سماجی کارکن نے نیا دور میڈیا کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ علاقے میں جرگے کی جانب سے پابندی عائد کرنا انتہائی افسوس ناک عمل ہے اور اس فیصلے سے خواتین مزید گھٹن کا شکار ہونگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے بھی جرگے کی جانب سے خواتین کی بازاروں میں جانے پر پابندی عائد کی گئی تھی اور اب جرگے کی جانب سے یہ نیا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے جو مایوس کن ہے۔
وہ کہتی ہیں قبائلی اضلاع میں عدالتیں بھی اب وجود رکھتی ہیں اور آئین پاکستان بھی وہاں پر نافذ کیا گیا ہے مگر پھر بھی فرسودہ سوچ رکھنے والے جتھے قانون ہاتھ میں لے کر ایسے فیصلے کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر جرگہ اتنا غیرت مند ہے تو پھر مقامی خواتین سے کھیتی باڑی اور گھر سے باہر مشقت والے کام بھی نہ کرائیں۔ خاتون سماجی کارکن نے کہا کہ جرگوں کو کون اختیار دیتا ہے کہ وہ خواتین کے فیصلے کریں، یہ فیصلے ہم نے کرنے ہیں۔ نیا دور میڈیا نے اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ باجوڑ اور پولیس سے موقف لینے کی کوشش کی مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔