جناب عمران خان آج اسلام آباد میں '' میڈیا کی آزادی'' کے حوالے سے ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ اپنی ہر بات میں مغرب کی مثال دینے والے خان صاحب آج بھی اس کی مدح سرائی کرنا نہ بھولے اور کہا کہ دیکھیں جی وہاں پر اخلاقیات کے ایسے ایسے معیار ہیں جو آج تک میں نے اپنے ملک پاکستان میں نہیں دیکھے۔ وہاں سب سے بڑی چیز جو میں نے دیکھی وہ اظہار رائے کی آزادی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے دور اقتدار میں کبھی کسی صحافی کیخلاف کارروائی کی اور نہ ہی ایسا سوچا۔ صرف نجم سیٹھی کیخلاف ہی عدالت گیا کیونکہ انہوں نے میری کردار کشی کی تھی۔ اس کے علاوہ کسی کیخلاف کچھ نہیں کیا۔ مجھے تو کابینہ اجلاس کے دوران پتہ چلتا تھا کہ فلاں صحافی کو اٹھا لیا گیا ہے۔
لیکن عمران خان نے جو دعوے کئے وہ محض جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ان کے دور میں صحافیوں پر کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے گئے۔ ابصار عالم، میر شکیل الرحمان، حامد میر، اسد علی طور، مطیع اللہ جان، محسن بیگ، نجم سیٹھی، عاصمہ شیرازی، مرتضیٰ سولنگی، نصرت جاوید، عنبر شمسی اور طلعت حسین ایسے نمایاں چہرے ہیں جنہوں نے خان حکومت کے ظلم سہے اور ان میں سے بعض کو نوکریوں تک سے نکلوایا گیا۔
https://twitter.com/nayadaurpk/status/1548347643989872644?s=20&t=bdFNssN2KmD911KhCCOaFg
سابق وزیراعظم کو 2021 میں رپورٹرز و دآؤٹ بارڈرز نے ''آزادی صحافت کا درندہ'' قرار دیا تھا۔ تنظیم نے عمران خان پر سوشل میڈیا پر صحافیوں اور بلاگرز کو ہراساں کرنے اور ان کی توہین کرنے کا الزام بھی لگایا تھا۔
ابصار عالم پر قاتلانہ حملہ
20 اپریل 2021ء کو ابصار عالم اسلام آباد میں اپنے گھر کے باہر پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے کہ اچانک ایک حملہ آور نمودار ہوا اور ان کو گولی مار کر فرار ہو گیا۔ گولی لگنے سے ابصار عالم شدید زخمی ہوئے لیکن انہوں نے اپنے اوسان خطا نہیں کئے اور ہمت کرکے ہسپتال پہنچے۔
اس دوران گاڑی میں بیٹھے انہوں نے زخمی حالت میں ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کروایا اور کہا کہ میں ان چیزوں سے نہ ڈروں گا اور نہ ہی حوصلہ ہاروں گا۔ میں یہ پیغام ان لوگوں کو دینا چاہتا ہوں جنہوں نے مجھے قتل کروانے کی کوشش کی ہے۔
اس قاتلانہ حملے کے 13 مہینے گزر جانے کے بعد ابصار عالم کو مئی 2022ء میں شیخوپورہ پولیس نے بلوایا تاکہ وہ حملہ آور کی شناخت کر سکیں۔ اس شخص کو ایک ڈکیتی کی واردات کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ دوران تفتیش اس نے پولیس کو بتایا کہ میں نے ہی اسلام آباد میں ابصار عالم نام کے ایک آدمی کو گولی ماری تھی۔
قاتلانہ حملہ کرنے والے شخص کی شناخت کے موقع پر ابصار عالم نے یہ تمام روداد کو اپنی ایک ٹویٹ میں سمویا اور لکھا کہ '' تھانے میں اس سے پوچھا کیا مجھے جانتے ہو؟ وہ بولا نہیں۔ پوچھا تو پھر گولی کیوں ماری؟ تو وہ بولا، پیسے کیلئے۔ کتنے پیسے ملے؟ ڈھائی لاکھ، ان پیسوں کا کیا کیا؟ بولا: کریانے، سبری والے کا قرض اتارا اور بچوں کی فیس وغیرہ ادا کی۔ کٹھ پتلی نہیں، ماسٹر مائنڈ پکڑو''
میر شکیل الرحمان
جنگ، دی نیوز اور جیو کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن بھی عمران خان حکومت کے زیر عتاب رہے۔ ان کو 34 سال پرانے نجی پراپرٹی کیس میں پھنسا کر مہینوں حراست میں رکھا گیا۔ ان کو 12 مارچ 2020ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ میر شکیل الرحمٰن نے 1986ء میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 54 کنال پرائیویٹ پراپرٹی خریدی، اس خریداری کو جواز بنا کر نیب نے انہیں طلب کیا۔ میر شکیل الرحمٰن نے تمام دستاویزات پیش کیں اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کرایا لیکن 12 مارچ کو نیب نے دوبارہ بلایا، وہ انکوائری کیلئے پیش ہوئے تو انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ نومبر 2020ء میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ضمانت منظور کی۔ اس کے بعد بالاخر 2022ء کو انھیں اس کیس سے باعزت بری کر دیا گیا۔
حامد میر پر پابندی
ریاستی اداروں پر تنقید کرنے کی پاداش میں سینئر صحافی حامد میر کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ گئے تھے۔ حامد میر اس وقت تک واپس نہیں آئے جب تک عمران خان کی حکومت ختم نہیں ہوگئی۔ اس سے قبل سابق صدر زرداری کا انٹرویو بغیر کوئی وجہ بتائے براہ راست نشریات کے دوران ہی بند کروا دیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ پرویز مشرف دور میں بھی حامد میر پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
اسد علی طور پر حملہ
26 مئی 2021ء کو معروف وی لاگر اور صحافی اسد طور کو ان کے گھر میں گھس کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تین نامعلوم افراد اسد علی طور کے فلیٹ میں زبردستی گھسے اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں شدید زدوکوب کیا۔ صحافی اسد طور پر حملے کے بعد صحافتی تنظیموں، سماجی کارکنوں اور سیاستدانوں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی۔ اس کے علاوہ اسد علی طور سماء ٹی وی کے ساتھ بطور پرڈیوسر وابستہ تھے لیکن ان کو اپنے وی لاگز میں عمران خان کی حکومت پر تنقید کی سزا دیتے ہوئے نوکری سے نکلوا دیا گیا تھا۔
مطیع اللہ جان کا اغوا
21 جولائی 2020ء کو سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے دن دیہاڑے اس وقت اغوا کر لیا گیا جب وہ اپنی اہلیہ کو سکول سے لینے گئے تھے جہاں وہ بطور معلم ملازمت کرتی ہیں۔ نامعلوم افراد نے انھیں سرعام زدوکوب کیا اور گاڑی میں بٹھا کر لے گئے اور لگ بھگ 12 گھنٹوں تک محبوس رکھا۔ اعلیٰ حکام نے واقعہ کا نوٹس لیا تو اغوا کاروں نے اپنے ''ماسٹر مائنڈ'' کے حکم پر مطیع اللہ جان کے گھر والوں کو فون کیا کہ آپ کا بندہ فتح جنگ کے قریب ہے، اسے آ کر لے جائیں۔ اپنی رہائی کے بعد مطیع اللہ جان نے ایک وی لاگ میں تمام واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ان کو ریاستی اداروں کے اہلکاروں نے اٹھایا تھا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کیس کا بھی ابھی تک ڈراپ سین نہیں ہوا کہ آخر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے مطیع اللہ جان کو اغوا کیا تھا۔
صحافی مطیع اللہ جان کو جب اغوا کیا گیا تو موقع پر پولیس اور ایمبولینس کی گاڑیاں موجود تھیں۔ جسے سی سی ٹی وی فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جس جگہ سے مطیع اللہ جان کو اٹھایا گیا وہ اسلام آباد کا حساس ترین علاقہ ہے۔ یہ واقعہ آبپارہ میں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر سے چند قدم کے فاصلے پر رونما ہوا جبکہ لال مسجد بھی اسی علاقے میں موجود ہے۔
محسن بیگ کی گرفتاری
عمران خان کی حکومت کے آخری دور میں جو صحافی ان کے عتاب کا نشانہ بنا وہ کوئی اور نہیں بلکہ ان کے ہی سابقہ دوست محسن بیگ تھے۔ محسن بیگ کو وفاقی وزیر مراد سعید کی درخواست پر ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔ ان کی غلطی بس یہ تھی کہ انہوں نے غریدہ فاروقی کے ایک پروگرام میں جناب مراد سعید کی ''کارکردگی'' بارے بات کی تھی۔
نجم سیٹھی پر مقدمہ اور چینل 24 پر پروگرام کی بندش
معروف اینکر نجم سیٹھی نے 28 مارچ 2019 کو ایک ٹی وی پروگرام میں عمران خان کی عائلی زندگی کے بارے میں خبریں دیں تو عمران خان سیخ پا ہو گئے اور ان کیخلاف عدالت میں 10 ارب روپے کے ہرجانے کا دعویٰ کر دیا تھا۔ صرف یہی نہیں نجم سیٹھی کیخلاف ذاتی عناد رکھتے ہوئے چینل 24 پر ان کا پروگرام کئی بار بند کروایا گیا۔
عاصمہ شیرازی
عمران خان کی حکومت کے دوران ناصرف مرد بلکہ خواتین صحافیوں کو بھی ہراساں کیا گیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال عاصمہ شیرازی ہیں۔ بی بی سی اردو پر شائع ایک کالم کے بعد انہیں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور تحریک انصاف کی جانب سے انتہائی سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کیخلاف ''حجاب میں لپٹی طوائف'' اور ''سرکاری حاجن'' جیسے گھٹیا ترین ٹرینڈ چلائے گئے۔ ان تمام کے پیچھے پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ملوث تھا۔
نصرت جاوید
سینئر صحافی نصرت جاوید کو عمران خان پر سخت تنقید کرنے کی پاداش میں نوکری سے نکلوا دیا گیا تھا۔ وہ ڈان نیوز پر ''بول بول پاکستان'' کے نام سے ایک پروگرام کی میزبانی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ دسمبر 2018ء میں نصرت جاوید پر ایک قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ نیا دور ٹی وی کے ویب ایڈیٹر علی وارثی کو انہوں نے تمام روداد بتاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسلام آباد کے علاقے G-8 میں اپنے گھر جا رہے تھے کہ اچانک امام باڑہ کے قریب ان کی گاڑی پر فائرنگ کر دی گئی۔
سید طلعت حسین
پاکستان میں میڈیا اور اس سے وابستہ ایسے صحافیوں اور اینکرز کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کیلئے ملازمت سے برطرف کیا گیا جو مقتدر طبقے اور تحریک انصاف کی حکومت کے ناقد سمجھے جاتے تھے۔ ان میں سید طلعت حسین بھی شامل تھے۔ جیو نیوز انتظامیہ نے اینکر طلعت حسین کا پروگرام ''نیا پاکستان'' بند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس پروگرام سے منسلک تمام ملازمین کو آگاہ کر دیا تھا کہ ادارے کو اب ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے قبل وقت نیوز سے مطیع اللہ جان، سماء نیوز سے عنبر شمی اور کیپیٹل ٹی وی سے مرتضیٰ سولنگی کو فارغ کروایا گیا۔ پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد معاشی مجبوریوں اور حالات کی تنگی کا بہانہ بنا کر میڈیا اداروں نے سینکڑوں کارکنوں کو برطرف کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ عمران خان کی حکومت میں سینسرشپ کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ مثلاً 2018 اور 2019 میں یہ سلسلہ عام تھا کہ عمران خان یا مقتدر حلقوں کیخلاف آواز کو بند کر دیا جاتا تھا۔ مرحوم صحافی ضیا الدین کیساتھ آج نیوز پر یہ متعدد مرتبہ کیا گیا۔ حامد میر کے پروگرام میں سابق صدر آصف زرداری کے انٹرویو کو یکایک بند کروا دیا گیا۔
https://twitter.com/thealiwarsi/status/1548344383019159555?s=20&t=N3blhHQYQ-_xTEOqArNRVw
اس کے علاوہ صحافیوں کو دھمکیاں موصول ہوتی رہیں کہ ایسی باتیں نہ کریں۔ یہاں تک کہ آج 16 جولائی 2022ء کو جیو نیوز کی ضمنی انتخابات کے حوالے سے لائیو ٹرانسمیشن کے دوران سینئر صحافی سلیم صافی نے یہ دعویٰ کیا کہ 2018ء کی الیکشن کوریج کے دوران رات جو جب رزلٹس آ رہے تھے اور آر ٹی ایس سسٹم بند ہو گیا تو میں نے یہ رپورٹ کیا کہ پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کو نکالا جا رہا ہے۔ تو جیو نیوز کی انتظامیہ پر دبائو ڈال کر اس پینل سے ہی ہٹا دیا گیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ نیا دور کی ویب سائٹ کو اپریل 2018ء اور بعد ازاں جنوری 2020ء میں بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کی جانب سے متعدد مرتبہ ایسے آرٹیکلز کو ڈیلیٹ کرنے کی مانگیں سامنے آتی رہیں جن کے اندر مقتدر حلقوں یا عمران خان کے اوپر تنقید کی گئی تھی۔ یاد رہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک مرتبہ پریس کانفرنس کے اندر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ 6 ماہ تک نئی حکومت کے بارے میں مثبت رپورٹنگ کریں لیکن یہ وقت گزر جانے کے بعد بھی انہوں نے صحافیوں کو برملا کہا کہ وہ مزید 6 ماہ عمران خان حکومت کو کچھ نہ کہیں۔