آصف علی زرداری پر ماضی میں بھی اس قسم کے جعلی مقدمات قائم کیے گئے اور ساڑھے گیارہ سال انہیں سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا مگر اس وقت بھی مرد حر آصف زرداری نے ہنس کر تمام تکالیف کو سہا اور آج بھی وہ مسکرا کر عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ آصف علی زرداری نے جب گرفتاری دی تب بھی وہ مسکرا رہے تھے اور انتہائی مطمئن نظر آرہے تھے۔
زرداری صاحب کی گرفتاری کے وقت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی مسکراہٹ سے بھی بہت سے لوگوں کو تکلیف پہنچی۔ مخالفین نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بلاول بھٹو اس گرفتاری پر خوش ہیں لیکن شاید وہ یہ بھول گئے کہ بلاول بھٹو ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے ہیں جن کے لئے گرفتاریاں اور اذیتیں نئی نہیں۔ بلاول صاحب کے نانا، نانی، دونوں ماموں اور ان کی والدہ کی جمہوری خدمات اور ان کی قربانیوں کو یہ قوم نہیں بھلا سکتی۔
زرداری صاحب اور فریال تالپورصاحبہ پر مقدمات قائم تو کر لیے گئے مگر ثبوت کہاں ہیں؟ اربوں روپے کی کرپشن کا الزام لگانے والے کیا ثبوت بھی پیش کر پائیں گے؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ جعلی مقدمات محض الزامات کی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں جس کا مقصد سیاسی مخالفین کو پریشر میں لانا ہوتا ہے مگر آصف زرداری وہ بہادر شخص ہے جو پریشر لیتا ہی نہیں۔
نیب کو حکومت کا آلہ کار بننے کے بجائے اور دہرا معیار اپنانے کے بجائے نیوٹرل کردار ادا کرنا ہوگا۔ نیب وہ ادارہ ہے جو ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے سیاسی مخالفین کو کنٹرول کرنے کے لئے بنایا اور آج بھی نیب کے کردار نے احتساب کے عمل کو متنازع اور مشکوک بنا دیا ہے۔
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ بلاول بھٹو نیب پر تنقید کرتے ہیں تو جواب حکومتی وزرا کیوں دیتے ہیں؟ حکومتی وزرا کا نیب سے کیا تعلق ہے؟ مجھے لگتا ہے وفاقی وزیر مراد سعید کو بچپن سے ہی نیب کا ترجمان بننے کی خواہش تھی جو پوری نہ ہو سکی اور اب وہ نیب کے خلاف بلاول صاحب کے بیان پر ردعمل کا اظہار کر کے دل ہی دل میں خود کو نیب کا ترجمان سمجھتے ہیں یا پھر بات کچھ اور ہے؟
جعلی مقدمات اور پارٹی قائدین کی گرفتاریوں سے پیپلز پارٹی کے جیالوں کے حوصلے مزید بلند ہو گئے ہیں۔ جیالہ کہتے ہی اسے ہیں جس نے جیلیں کاٹی ہوں تو کوئی جیالہ جیل یا گرفتاری سے بھلا کیسے ڈر سکتا ہے؟ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے نہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو ڈرایا جا سکتا ہے نہ ان کے کارکنان کو۔