شہری منصوبہ بندی میں سایہ کی ترجیح ناگزیر کیوں؟

12:19 PM, 16 Jun, 2022

محمد توحید
باقی صدیقی کہتے ہیں

شہر کا شہر کڑی دھوپ میں ہے

کس کی دیوار سے سایہ مانگیں

گرمی کے موسم میں بالخصوص دن کے وقت سایہ حاصل کرنے کے لئے کسی سائبان کے نیچے جگہ مل جانا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ شہری گرمی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے سایہ سب سے موثر حکمت عملیوں میں سے ایک ہے۔ خاص طور پر چھوٹے اور مقامی پیمانے پر یہ ایک آسان حل ہے جس سے گرمی کے اثر کو کم کیا جاتا ہے۔

اگر ہم پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی پر ایک نظر ڈالیں تو جہاں سورج ایک ہمہ وقت قوت کے طور پر موجود ہو کر فائدے دیتا نظر آتا ہے تو وہیں براہ راست دھوپ میں گھروں سے باہر نکلنا بھی مشکل بنا دیتا ہے کیونکہ دیگر شہروں کی طرح کراچی کا درجہ حرارت  بھی بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔

تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ پچھلے 59 سالوں میں کراچی کے اوسط درجہ حرارت میں 2.25 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے، یعنی ہر دہائی میں 0.38 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا جو کہ عالمی درجہ حرارت میں ہونے والی تبدیلیوں سے دس گنا زیادہ ہے۔ مگر کراچی کا مسئلہ صرف بڑھتا ہوا درجہ حرارت نہیں بلکہ اس کے ساتھ نمی میں اضافے سے سال کے آٹھ مہینے یعنی مارچ سے لے کر اکتوبر تک شہر ایک بھٹی کا سماں پیش کرتا ہے۔ پھر ہواؤں کا نہ چلنا صورتحال کو مزید ناقابل برداشت بنا دیتا ہے۔ یوں ہر گزرتے سال شہریوں کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

ہر موسم گرما میں، شہر کراچی میں گرمی کی لہروں کی تعداد اور شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں نہیں تو درجنوں اموات ہوتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے اکثر کو شدید گرمی کی لہر کے ذیل میں شامل نہیں کیا جاتا۔

رواں سال 2022ء میں مارچ کے مہینے میں کراچی میں گرمی کی متوقع لہر سے متعلق الرٹ جاری کر دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس دوران نمی کی سطح بھی بڑھے گی جس کی وجہ سے اصل درجہ حرارت سے زیادہ گرمی محسوس ہوگی۔ کچھ ایسا ہی سلسلہ 2015 میں دیکھنے میں آیا تھا کہ شہر شدید گرمی کی لہر کا شکار ہو گیا تھا لیکن وہ جون کا مہینہ تھا جب درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھ گیا تھا اور  شہریوں سے لے کر طبی عملے تک ایسی کسی صورتحال کے لئے تیار نہیں تھا اور اس کے نتیجے میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہ تعداد 5000 سے زائد تھی۔



شہر کے بڑے مردہ خانے کو لاشوں کو رکھنے کی جگہ کے ساتھ ساتھ اور قبرستانوں میں مردے دفن کرنے کے لیے جگہ ختم ہوگئی تھی۔ گرمی کی لہر جس کا سلسلہ 2015 میں جون کے مہینے میں شروع ہوا تھا اور سات سالوں میں مارچ کے مہینے تک جا پہنچا اور موسم بہار ہم سے روٹھ گیا۔

ایسے حالات میں یہ ایک ضروری امر ہے کہ گرمی کی لہروں سے نمٹنے اور اس کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں جس میں ترجیح سایہ دار جگہوں کی فراہمی ہو۔ اس کے لئے ہم نے یہ دیکھا کہ شہر کراچی میں موسم گرما کے دوران مقامی گرم ماحول اور درجہ حرارت کو بہتر بنانے کے لیے سایہ اور سائبان کے مختلف ذرائع کتنی مقدار میں ہیں اور کون سے ہیں؟ تو یا تو ترپال اور چھجے کا استعمال نظر آتا ہے جو سورج کی گرمی کو براہ راست پہنچنے سے روکتا ہے یا پھر دوسرا ذریعہ درخت ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے اور مجموعی طور ہر شہر میں دھوپ کی تپش سے بچنے کے لیے سایہ دار جگہیں اور چھائیاں نایاب ہیں۔ ناصرف عوامی مقامات پر بلکہ سڑکوں کے ساتھ ساتھ، دکان پر، بس سٹاپ پر، پارکوں میں اور سایہ اگر کہیں میسر ہے تو یا تو درختوں کے پاس یا خود ساختہ سایہ دار جگہیں ہیں جو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ضرورت کے طور پر قائم کی ہیں۔ ایسے حالات میں جھلستی دوپہر اور تپتی دھوپ میں سایہ مل جانا غنیمت ہی سمجھا جاتا ہے۔

شہری منصوبہ ساز اور معمار اس بات پر متفق ہیں کہ شہر کے چوک اور عوامی مقامات پر گھنے درختوں کا ہونا پیدل چلنے والوں سے لے کر ان جگہوں کو استعمال کرنے والوں کے لئے بہت مفید ہوسکتا ہے یا کم ازکم مختلف طرح کے سائبان یا چھتریوں کی موجودگی سورج کی تپش اور گرمی کے دباؤ کو زیادہ مؤثر طریقے سے کم کر سکتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاملے میں "سایہ" کی تلاش ایک بہت زیادہ مشکل کام ہے۔ وہ سایہ جو شہری گرمی کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے ضروری ہے۔ کراچی کے عوامی مقامات میں عیش و آرام کے طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ اگر آپ صبح 10 بجے سے 5 بجے کے درمیان کراچی کے عوامی مقامات کا دورہ کرتے ہیں اور خوش قسمتی سے آپ کو درخت کا سایہ یا کسی اور قسم کے سورج کے بادبان نظر آتے ہیں، تو آپ آسانی سے درجہ حرارت میں اوسطاً 4.0 سے 5.0 سینٹی گریڈ کی کمی کو محسوس یا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ان چھوٹے پیمانے پر زمینی پیمائشوں اور مشاہدات کے نتائج کو آب وہوا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق شہری ڈیزائن کی حکمت عملیوں میں آسانی کے ساتھ شامل کیا جا سکتا ہے اور شہری منصوبہ بندی میں سایہ کی ترجیح سے ممکنہ گرمی کی لہروں  سے نمٹنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔



اردو لغت کے اعتبار سے سایہ دار جگہ کے لئے مختلف الفاظ ملتے ہیں جیسے کہ چھجا، نمگیرا، سائبان، ترپال، شامیانہ اور چھتری وغیرہ عام زندگی کی طرح اردو شاعری میں بھی ' سایہ' سکون اور راحت کی ایک علامت ہے۔ جس میں جا کر آدمی دھوپ کی شدت اور سورج کی تپش سے بچتا ہے اور سکون کی سانسیں لیتا ہے۔ البتہ شاعری میں سایہ اور دھوپ کی شدت زندگی کی کثیر صورتوں کیلئے ایک علامت کے طور پر برتی جاتی ہے۔ یہاں سایہ صرف دیوار یا کسی پیڑ کا ہی سایہ نہیں رہتا بلکہ اس کی صورتیں بہت متنوع ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح دھوپ صرف سورج ہی کی نہیں بلکہ زندگی کی تمام ترتکلیف دہ اور منفی صورتوں کا استعارہ بن جاتی ہے۔

میر تقی میر کہتے ہیں:

دیکھتا ہوں دھوپ ہی میں جلنے کے آثار کو

لے گئی ہیں دور تڑپیں سایۂ دیوار کو

کراچی کی آب و ہوا جو کبھی مرطوب اور معتدل ہوا کرتی تھی اب بلاشبہ سخت ہو چکی ہے اس کے ساتھ ہی شہر کے عوامی مقامات پر سایہ دار جگہیں نہ ہونے سے گرمی کا اثر مزید بڑھ گیا ہے۔ باہر چہل قدمی کے دوران، کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا مشکل ہے جو چھلکتی دھوپ میں نہ آئے۔ سایہ کی کمی کا اثر بنیادی طور پر پہلے سے کمزور آبادیوں، جیسے کہ شہر کا محنت کش طبقہ اور بے گھر افراد پر محسوس ہوتا ہے۔ تعمیراتی مزدور، کوڑا کرکٹ جمع کرنے والے اور پھیری لگانے والے افراد کو درجہ حرارت کی پرواہ کیے بغیر، اکثر دھوپ سے غیر محفوظ رہتے ہوئے باہر کام کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ کراچی ایک ایسا شہر ہے جس کی معیشت کا ایک بڑا حصہ غیر رسمی معیشت پر مبنی ہے، جو شہر کی 72 فیصد افرادی قوت کو ملازمت دیتی ہے تو بہت سے لوگ غیر رسمی معیشت سے وابستہ ہیں اور یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور ان کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ انہیں لازما باہر نکلنا ہے اور سورج کی تپش کو جھیلنا ہے۔

جب بھی گرمی کی لہر کی توقع کی جاتی ہے تو ماہرینِ صحت شہریوں کو حدت سے بچنے کے لیے سایہ دار جگہوں پر رہنے اور پانی کے زیادہ استعمال کا مشورہ دیتے ہیں مگر کراچی جیسے شہر میں پانی کا زیادہ استعمال بھی سایہ دار جگہ کی موجودگی کی طرح ایک عیاشی سے کم نہیں کیونکہ ہمارے ادارے جہاں سیلاب سے لے کر زلزلوں اور دیگر آفات پر کارروائی کرتے ہیں اور امدادی مہم چلاتے ہیں مگر مسلسل بڑھتی ہوئی جابرانہ گرمی کی لہروں اور درجہ حرارت کو نظر انداز کردیتے ہیں۔



شاید وجہ یہ ہو کہ ایک انتہائی نظر آنے والی تباہی نہیں ہے اور ظاہری طور پر یہ معاشی ترقی کو بھی متاثر نہیں کرتی ہے۔ جبکہ 2015 کی ایک ہفتے جاری رہنے والی شدید گرمی لی لہر جس میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے اسے آفات کے سیاق و سباق میں شامل ہی نہیں کیا جاتا۔ گرمی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کے بجائے، حکام اور ادارے صرف رہائشیوں کو محض گھر کے اندر رہنے کی تنبیہ کرتے نظر آتے ہیں جبکہ ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے والوں اور ایمبولنس کی خدمات فراہم کرنے والوں تک کو اس پورے معاملے میں شامل نہیں کیا جاتا۔ تو ایسے حالات میں شہری منصوبہ بندی کے لیے سایہ کو ترجیح  دینے کی بات کون کرے ۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے شہر میں سبزہ زار بڑھانے سے لے کر شہر میں سایہ دار جگہوں کی فراہمی پر باتوں اور بیانات سے ہٹ کر بامعنی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔

لگتا ہے کہ حمایت علی شاعر نے ایسے ہی موقع کے لئے کہا ہے کہ

اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے

چمکی جو ذرا دھوپ تو جلنے لگے سائے

ایسے شہر میں جس کی اکثریت غیر رسمی معیشت سے وابستہ ہو اور اس کی 65 فیصد آبادی غیر رسمی بستیوں میں رہنے پر مجبور ہو۔ 'گھر کےاندر' رہنا ایسا انتخاب نہیں ہے جو سب کے لیے دستیاب ہو۔ طبقہ اشرافیہ کے وہ لوگ جو ایئر کنڈیشنڈ گھروں میں رہتے ہیں اور ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں سے سفر کرتے ہیں، یا کم از کم وہ لاگ جو دفتری ملازمت کرتے ہیں، ان کی حد تک تو ییہ سفارش مفید ہے۔ تاہم آبادی کے بہت بڑے حصے کے لیے، 'اندر' رہنا' چاہے وہ گھر میں ہو یا گاڑی میں ، آسانی سے قابل رسائی نہیں ہے۔

میر تقی میر کہتے ہیں کہ

حسرت لطف عزیزان چمن جی میں رہی

سر پہ دیکھا نہ گل و سرو کا سایہ ہم نے

ایسے حالات میں ہماری پہلی ترجیح درخت لگانا ہونی چاہیے کیونکہ درخت ناصرف سایہ دیتے ہیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرتے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاتے ہیں۔ زمین کے کٹائو کو روکتے ہیں۔ شدید دھوپ میں انسانوں اور جانوروں کو سایہ انھیں درختوں سے نصیب ہوتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ شہر میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر بھی ہزاروں درخت اکھاڑے گئے ہیں۔ نیشنل فورم فار انوائرمنٹ اینڈ ہیلتھ کے 2017ء کے سروے کے مطابق 2012ء سے 2017ء کے درمیان شہر میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے 47,000 درخت اکھاڑ دیے گئے۔



گرین لائن کی تعمیر سے سرجانی ٹاؤن تا گرومندر شہر 17 ہزار درختوں سے محروم ہوا۔ یونیورسٹی روڈ کی توسیع اور تعمیر نو کے منصوبے کی وجہ سے 12 ہزار درختوں کو کاٹا گیا۔ اسی طرح سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے کی توسیع کے منصوبوں کے لیے تقریباً 4,000 مزید درختوں کی قربانی دی گئی جبکہ سپر ہائی وے کے قریب قربانی کے جانوروں کی عارضی منڈی کو بڑھانے کے لیے 1,200 درخت بھی کاٹے گئے۔ جبکہ انھیں پانچ سالوں میں مختلف شہری منصوبوں کی وجہ سے شہر کے بڑے رہائشی علاقوں میں 13 ہزار درخت کاٹے گئے۔ اسی طرح 2018ء میں ہونے والے تجاوزات کے خلاف آپریشن میں بلدیہ عظمیٰ کراچی نے صرف صدر اور آس پاس کے علاقوں سے 7500 دھوپ سے بچاؤ کے شیڈز ( چھجے) ہٹائے تھے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ جنوری 2022ء میں شہر کے ضلع جنوبی میں پھر کئی سو دھوپ سے بچاؤ کے شیڈز ہٹائے گئے جبکہ عوامی مقامات پر سایہ دار جگہیں فراہم کرنے کے لئے ایک پالیسی کی ضرورت ہے کیونکہ گرمی اور دھوپ کی نمائش صحت عامہ کا بحران ہے۔ مگر کراچی میں منصوبہ بندی، قانون اور ترقی ناصرف زیادہ سایہ دار جگہیں پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس نے اسے فعال طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اور آج شہر میں سایہ دار گلیاں نایاب ہیں، کیونکہ ہم نے درختوں کی قیمت پر سڑکوں کو بار بار چوڑا کیا ہے۔

کیفی اعظمی نے شاید اسی وقت کے لئے کہا تھا کہ

پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا

جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا

ایک جانب حکومت اور ادارے تسلیم کرتے ہیں کہ سایہ دار اور سبز جگہیں شہر کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بہت ضروری ہیں اور دوسری جانب دھوپ سے بچاؤ کے لئے قائم چھجوں کو تجاوزات قرار دے کر انہیں ہٹا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کراچی کے متعدد پارکوں کو بہتر بنانے کی کوشش تو کی جاتی ہے مگر ان پارکوں میں کوئی سایہ دار جگہ یا درخت نظر نہیں آتے۔ کچھ پارکوں میں بڑی چھتریاں لگائی گئی تھیں مگر وہ اب قصہ پارینہ بن گئیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب اسی شہر میں لوگ گرمی کے موسم میں درختوں کے نیچے آرام کیا کرتے تھے۔

میر تقی میر نے کیا خوب کہا کہ

پھرا کرتے ہیں دھوپ میں جلتے ہم

ہوا ہے کہے تو کہ سایہ ہمیں

اب تو کراچی کا موسم ایسا ہے کہ دھوپ آئے دن اپنے ریکارڈ بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ ایسے سخت حالات میں ہر انسان ہر ممکن دھوپ سے بچنے اور گرمی سے محفوظ رہنے والا انتظام کرتا ہے۔ جھلسا دینے والی دھوپ اور اس کی جان لیوا لوُ سے حفاظت کی پوری تدبیریں کرتا ہے۔ راستہ چلتے اگر کہیں سایہ نظر آجائے اور کچھ دیر راحت حاصل کرنے کا موقع مل جائے تو فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ پھیری والے اور پتھارے والے اپنی مدد آپ کے تحت کپڑے کا چھپرا ڈالتے ہیں تاکہ جھلستی ہوئی دھوپ سے محفوظ رہ سکیں۔ اکثر ٹھیلے والے بڑی گھومنے والی چھتریاں لگاتے ہیں تاکہ سورج کے رخ کے اعتبار سے اسے گھمایا جا سکے۔ اس طرح کراچی میں شہری محنت کش طبقے کی آبادی اپنا سایہ بناتی ہے۔

خالدہ عظمیٰ نے اس منظر کو یوں بیان کیا

وہ تپش ہے کہ جل اٹھے سائے

دھوپ رکھی تھی سائبان میں کیا

شدید گرمی کی وجہ سے شہر کے باشندوں کے معمولات زندگی متاثر ہوتے ہیں۔ عام لوگ دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے درختوں اور عمارتوں کا سایہ تلاش کرتے ہیں مگر عوامی مقامات سے لے کر سایہ فراہم کرنے والی جگہیں سکڑتی جا رہی ہیں اور ان کی جگہ سڑکیں، عمارتیں اور دیگر بنیادی ڈھانچہ بن رہے ہیں۔ ہر موسم گرما میں گرمی کی لہر ایک بحران لاتی ہے۔ پسماندہ طبقات، مزدور پیشہ افراد اور باہر رہ کر کام کرنے والے افراد کے لئے یہ بہت سخت اور سنگین صورتحال ہے کیونکہ ہر نئے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے اور ہر اکھڑے ہوئے درخت کے ساتھ، سایہ تیزی سے ایک عیش و آرام کی چیز بنتا جا رہا ہے۔

کراچی کی موجودہ صورتحال پر میر کا یہ شعر صادق نظر آتا ہے

دھوپ میں جلتی ہیں غربت وطنوں کی لاشیں

تیرے کوچے میں مگر سایۂ دیوار نہ تھا
مزیدخبریں