عمران خان کا انقلاب جس کی ناکامی ناگزیر تھی

10:36 AM, 16 Jun, 2023

حسین حقانی
پاکستان مشکلات کے بھنور میں پھنس چکا ہے۔ معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ سال جی ڈی پی کی شرح نمو 0.29 فیصد تک سکڑ کر رہ گئی تھی۔ افراط زر کی سالانہ شرح 36 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں سالانہ افراط زر 48 فیصد ہو چکا ہے۔ ملک کو ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج پر مذاکرات تعطل میں پڑ گئے ہیں۔ ماضی قریب تک گندم برآمد کرنے والے ملک کو 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے باعث گندم درآمد کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ ملک کو پاکستانی طالبان کا پیدا کردہ سکیورٹی کا خطرہ بھی درپیش ہے – ایک ایسا عسکریت پسند گروہ جن کی جانب سے سویلین اور فوجی اہداف پر ملک بھر میں ہونے والے سفاک حملوں میں حالیہ دنوں کے دوران تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پوزیشن تاریخ کی کمزور ترین سطح پر ہے۔ امریکہ جو کبھی پاکستان کا اتحادی تھا اور اربوں ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد کا ذریعہ بھی، 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے اس کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات بتدریج بگاڑ کا شکار ہیں۔ بھارت جو کہ 1947 میں برطانوی انڈیا کی تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ آزاد ہوا، اب تک پاکستان کا حریف ہمسایہ ملک ہے۔ بھارت پاکستان کے ساتھ تب تک مذاکرات کرنے کو تیار نہیں جب تک پاکستان سرحد پار دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے میں اپنا کردار تسلیم نہیں کر لیتا اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ روایتی شراکت دار اور دوست ممالک جن میں چین، عرب ریاستیں اور اسلامی دنیا کے بعض ملک شامل ہیں، وہ بھی پاکستان کے بڑھتے بحرانوں سے پریشان حال نظر آتے ہیں۔

لیکن پچھلے سال میں پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والا بحران اب اپنی حدوں کو چھو رہا ہے۔ سال 2022 کے موسم بہار سے پاکستان کی سیاست مقبول عام لیڈر اور سابق وزیر اعظم عمران خان جنہیں گذشتہ سال پارلیمان کی عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت سے بے دخل کیا گیا تھا، ملک کی طاقتور افواج اور حکمران سیاسی جماعتوں کے مابین رسہ کشی میں گھر کر رہ گئی ہے۔

ایک وقت تھا جب عمران خان کو فوج کی جانب سے بھرپور حمایت حاصل تھی اور اسی حمایت کے بل بوتے پر 2018 میں وہ اقتدار میں آئے تھے مگر اس کے بعد عمران خان 2022 میں فوج کی حمایت اور نتیجتاً اقتدار کھو بیٹھے۔ تب سے انہوں نے ملک بھر میں ریلیوں اور جلسے جلوسوں کی قیادت شروع کر دی جن میں وہ برملا الزام لگاتے رہے کہ انہیں اقتدار سے نکالنے کے لئے امریکہ کی مدد سے سازش کی گئی تھی۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ وہ عمران خان کی جگہ لینے والی پی ڈی ایم حکومت کو برا بھلا کہتے رہے اور سینیئر فوجی افسران پر الزام عائد کرتے رہے۔

اس سلسلے کا انجام 9 مئی کے واقعات کی صورت میں ہمارے سامنے آیا جب عمران خان کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا اور اس واقعے نے ان کے حامیوں کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا۔ عمران خان کے حامی ہجوم نے فوجی ہیڈ کوارٹرز اور متعدد فوجی تنصیبات پر حملے کیے جن کے بعد ملک بھر میں کریک ڈاؤن شروع ہو گیا۔ اب تک ہزاروں کی تعداد میں عمران خان کے حامیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، پی ٹی آئی کے متعدد رہنما پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں، جن میں سے بعض پر فوج کا دباؤ بھی تھا۔ اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ مقتدر اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو للکار کر پھر سے وہی طاقت حاصل کر لیں گے جو پہلے بظاہر ان کے پاس تھی تو فی الحال ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ عمران خان جو اکثر ایک مقبول عام جذباتی رہنما نظر آتے ہیں ان کی جانب سے جمہوریت کے بجائے ساری لڑائی اپنی ذات کے لئے لڑنا اور اپنی مقبولیت دکھانے کے لئے تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کا حربہ آزمانا فوج کے ہاتھوں ان کی شکست کا باعث بن سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ ملک کی کمزور جمہوریت کی حفاظت کرتے، وہ مسلسل دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے انکار کرتے رہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے سے مضبوط فوجی جرنیلوں کو مزید طاقت مل گئی اور ملک پر ان کی گرفت اور بھی پختہ ہو گئی۔

عمران خان کا غصہ

اپنے اچھے وقت میں بھی پاکستان کی سیاست انتشار کا شکار رہتی ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ 4 جنگیں، 1971 میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی صورت میں ملک کے آدھے رقبے اور آدھی سے زیادہ آبادی کی علیحدگی، مذہبی اور فرقہ وارانہ لڑائیاں، کئی شورشیں، متعدد آئین، 4 فوجی مارشل لاء اور آئینی حکمرانی سے محروم طویل ادوار، بے شمار سیاسی قتل، تباہ کن دہشت گرد حملے، بار بار کی اقتصادی ناکامیاں اور انسانی ترقی کے مسلسل خراب اشاریے پاکستان کی 76 سالہ تاریخ کی پریشان کن جھلکیاں ہیں۔ 1958 میں پہلی مرتبہ سے اب تک پاکستان 23 بار عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض کے لئے رجوع کر چکا ہے اور یوں پاکستان ارجنٹائن سے بھی زیادہ آئی ایم ایف کے پروگراموں کا حصہ ہے جسے آئی ایم ایف کا سب سے بڑا قرض دار ملک سمجھا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ مذاکرات جن پر چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے مزید امداد حاصل کرنے کا انحصار ہے، موجودہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پیچیدہ صورت اختیار کر چکے ہیں۔

عمران خان پاکستانی سیاست کی مرکزی شخصیت بن چکے ہیں جنہیں پاکستانیوں کے ایسے طبقے کی پسندیدگی حاصل ہے جو روایتی سیاست دانوں کے بارے میں بدگمان ہیں۔ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان کو ان کے پیروکار مسیحا سمجھتے ہیں جب کہ ناقدین انہیں ایک pied piper کے طور پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں وہ پہلے سیاست دان ہیں جو سوشل میڈیا کے ماہر ہیں، نوجوان سپورٹرز انہیں عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسی وجہ سے عمران خان کی جانب سے امریکہ، پاکستانی فوجی قیادت اور روایتی سیاست دانوں کے خلاف گھڑے گئے سازشی نظریات کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ سبھی پاپولسٹ لیڈروں کی مانند عمران خان کو بھی بات کرنے کا گُر آتا ہے جو اپنے حامیوں کے غصے اور بے اختیاری کے احساس کو اچھی طرح استعمال کرتے ہیں۔ تاہم دیگر پاپولسٹ لیڈرز ہی کی مانند وہ مسائل کے حقیقی حل تجویز کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد جب عمران خان نے فوج کو للکارنا شروع کیا تو بعض مبصرین کو لگا کہ یہ پاکستانی سیاست میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ ان کا خیال تھا کہ بطور ایک کرشماتی رہنما کے آخرکار عمران خان اتنی عوامی حمایت حاصل کرنے میں غالباً کامیاب ہو جائے گا کہ پاکستانی فوج کی حاکمیت کو ختم کر دے گا۔ لیکن 9 مئی کے واقعات جن کے دوران عمران خان کے حامیوں نے فوجی تنصیبات پر حملے کیے اور جو اب ثابت ہو رہا ہے کہ منظم منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے تھے، انہوں نے فوج کے لئے عمران خان کے چیلنج کو بے اثر کر دیا ہے۔ ان حملوں نے فوج اور عمران خان کے سیاسی مخالفین کو جواز فراہم کر دیا ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف سخت اقدامات اٹھائیں جن میں قومی ٹیلی وژن چینلوں پر عمران خان کی تقریروں پر پابندی لگانا بھی شامل ہے۔ انقلاب کے لئے عمران خان کی غیر ذمہ دارانہ اپیلوں نے فوج کو کھلا راستہ دے دیا کہ وہ عمران خان کے مخالف عوام کی حمایت حاصل کریں اور ملک پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط کر سکیں۔

عمران خان کے پیروکاروں کو فوجی عمارتوں میں گھسنے اور ان پر حملے کرنے کے جرم میں اب پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا ہے۔ اسی طرح حساس مقامات کی لوکیشن سوشل میڈیا پر ظاہر کرنے کے جرم میں انہیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا ہو گا۔ عام شہریوں کے مقدمات کی فوجی عدالتوں میں سماعت انسانی حقوق کے عالمی سطح پر منظور شدہ اصولوں کے خلاف تو ہو سکتی ہے تاہم ستم ظریفی دیکھیے کہ ماضی میں عمران خان خود اس اقدام کی حمایت کر چکے ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے برعکس عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو اس سے پہلے کبھی بھی سنگین ریاستی جبر کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس جماعت میں شامل بیش تر سینیئر رہنما اسٹیبلشمنٹ کے بندے ہیں جو ہمیشہ فوج یا پھر انتخابات جیتنے والے سیاسی دھڑے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اگرچہ عمران خان کی شبیہ ایک ایسے مقبول رہنما کی تھی جن کے پیچھے عام عوام کی اکثریت کھڑی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مشہور عوامی شخصیات اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے۔ یہ لوگ اکثر و بیشتر سوشل میڈیا کے ذریعے ہی اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں مگر وہ ایسے حقیقی انقلابی ہرگز نہیں ہیں جو اپنی جانیں گنوانے، نوکریاں کھونے یا جیل جانے کا خطرہ مول لے سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ کریک ڈاؤن کے دوران پی ٹی آئی کے بہت سارے رہنما اور اراکین پارلیمنٹ عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کے علاوہ سیاست سے ہی کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔

حکومت اور فوج کو توقع ہے کہ پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت کی جانب سے پارٹی چھوڑنے پر رضامندی دکھانا عمران خان کی سیاسی بنیاد کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔ سابق وزیر اعظم کی عالمی برادری سے یہ اپیلیں کہ وہ پاکستانی ریاست کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی مذمت کریں، ابھی تک بے اثر ہی ثابت ہوئی ہیں۔ غیر ملکی خاص طور پر مغربی حکومتوں نے عمران خان کی غیظ و غضب پر مبنی مہم پر سوالیہ دلچسپی کے ساتھ نظر رکھی ہوئی ہے۔ ماضی میں عمران خان یہ دعویٰ کرتے ہوئے مغربی جمہوریت کی تضحیک کر چکے ہیں کہ مغربی جمہوریت کا نظام عوام کو اپنے حالات زندگی بہتر بنانے کے مواقع فراہم نہیں کرتا۔ اس کے مقابلے میں وہ چین میں رائج یک جماعتی نظام کی تعریف کرتے رہے ہیں اور چینی نظام کو مغربی جمہوریت کے مقابلے میں بہتر ماڈل قرار دیتے رہے ہیں۔ اب عمران خان کو دنیا کے سامنے پاکستان میں جمہوریت کے آئیکون کے طور پر خود کو دوبارہ سے پیش کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔

عمران خان کو ایک قانونی رکاوٹ کا بھی سامنا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے، عین اسی طرح جیسے 2017 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان کا راستہ صاف کرنے کے لئے کمزور قانونی بنیادوں پر تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا۔ عمران خان کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی حمایت حاصل ہے جو مئی میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے دفاع میں کود پڑے تھے۔ انہوں نے سابق وزیر اعظم کو ضمانت پر رہائی دے دی اور ان کی گرفتاری کے طریقہ کار کو غیر آئینی قرار دیا۔ عمران خان کو حاصل اس عدالتی حمایت کے ردعمل میں سپریم کورٹ کے سامنے اتحادی جماعتوں کے مظاہرے شروع ہو گئے جن میں بائیں بازو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور دائیں بازو کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام شامل تھیں۔ یہ جماعتیں پاکستان کے موجودہ حکمران اتحاد کا بھی حصہ ہیں۔ عمران خان کے ساتھ حکمران اتحاد کے جھگڑے نے ملک کے ماحول سے بچی کچھی سیاسی آکسیجن بھی کھینچ لی ہے۔ یہاں تک کہ اگر حکومت چیف جسٹس بندیال پر قابو پانے اور عمران خان کو الیکشن لڑنے سے نااہل کروانے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے، تب بھی حکومت کو ملک کے بے شمار سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل حل کرنے میں کوئی مدد نہیں ملنے والی۔ عین اسی طرح جیسے چند سال پہلے فوج کی حمایت سے عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا تھا مگر ملکی مسائل کو حل کرنے میں اس سے کوئی مدد نہیں ملی تھی۔

جنگجو لڑکا

پاکستان کی موجودہ بدانتظامی جرنیلوں اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی سیاسی مداخلتوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے شروع سے گٹھ جوڑ بنا کر کارروائی کی ہے۔ جرنیلوں نے عمران خان کی مقبولیت بڑھانے میں کردار ادا کیا کیونکہ وہ روایتی سیاست دانوں سے اکتا چکے تھے جنہیں وہ بدعنوان، موروثیت کی پیداوار اور فوجی افسران کی طرف سے بنائی گئی سکیورٹی پالیسیوں پر عمل درآمد کروانے کی صلاحیت سے عاری یا جان بوجھ کر ان کی مخالفت کرنے والے سمجھتے تھے۔ فوج نے بااثر مقامی سیاست دانوں کو عمران خان کی پارٹی میں شامل ہونے کی ترغیب دی بالکل اسی طرح جیسے آج کل عمران خان کو چھوڑنے پر انہیں مجبور کر رہی ہے۔

اس وقت فوج کو توقع تھی کہ عمران خان فوج کی اعلیٰ کمان کی طرف سے وضع کی گئی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک کارآمد سویلین چہرہ ثابت ہوں گے۔ تاہم 2022 کے اوائل تک فوجی قیادت اور عمران خان میں دوریاں پیدا ہو گئیں جن کے اسباب میں امریکہ کے لئے عمران خان کی نفرت کا کھلے عام اظہار، اپنی بیان بازی میں مذہبی انتہا پسندی اور قوم پرستی پر مبنی مواد کا استعمال اور ملک کی معیشت کو سنبھالنے میں ناکامی شامل ہیں۔ عمران خان کا اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ بھی جھگڑا ہو گیا جنہیں عمران خان نے ایک مرتبہ مدت ملازمت میں توسیع دی تھی لیکن دوبارہ توسیع دینے پر تیار نہیں ہوئے۔ آرمی چیف کو خدشہ تھا کہ عمران خان فوج کو کنٹرول کرنے اور خود کو تمام طاقت کا سرچشمہ بنانے میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی تقلید کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

فوج نے عمران خان کی حمایت چھوڑ کر سیاست سے دور رہنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن پاکستان کی تاریخ کو جاننے والوں میں شاید ہی کچھ لوگوں نے اس اعلان پر یقین کیا ہوگا۔ ماضی میں فوج کے ساتھ سینگ پھنسانے والی روایتی سیاسی جماعتیں حکومت میں شامل عمران خان کے اتحادیوں کو توڑنے اور پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کی حکومت گرانے میں کامیاب ہو گئیں۔ اگر عمران خان عدم اعتماد کی تحریک کو پارلیمانی اور جمہوری عمل کے حصے کے طور پر قبول کر لیتے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیتے تو سیاست دان اکٹھے ہو کر ملکی سیاست میں فوج کا کردار ختم کر سکتے تھے۔ سیاست دان مل کر یہ بھی یقینی بنا سکتے تھے کہ بڑے بڑے فیصلے فوج کے بجائے پارلیمنٹ طے کرے۔ عمران خان کا تجربہ ناکام ہونے کے بعد دل گرفتہ پاکستانی فوج بھی ملکی سیاسی میدان میں مداخلت سے باز رہنا قبول کر لیتی گو کہ قومی سلامتی کے امور، خارجہ پالیسی اور معیشت میں اپنا حصہ برقرار رکھنے میں وہ بدستور اپنا کردار جاری رکھتی۔

اس کے بجائے عمران خان نے اپنی شکست ماننے سے انکار کر دیا۔ عمران خان نے اپنی اس بدقسمتی کو سازش قرار دیا جس میں ان کے بقول امریکہ بھی ملوث تھا اور مطالبہ کیا کہ فوج 'غیر محب وطن' سیاست دانوں کے مقابلے میں ان کی حمایت کرے اور ملک میں فوری طور پر عام انتخابات کروائے جائیں حالانکہ پارلیمنٹ کی موجودہ مدت اکتوبر 2023 میں ختم ہونی ہے۔ بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنے حق میں باہر نکلتے دیکھ کر عمران خان نے انقلاب لانے کی باتیں شروع کر دیں۔ ان کا یہی بیانیہ تھا جس نے کرپشن کے الزامات میں ان کی گرفتاری کے بعد ان کے پیروکاروں کو فوجی تنصیبات پر حملے کرنے کی راہ دکھائی اور یوں انہوں نے ریاستی طاقت کے ہتھوڑے کو خود ہی اپنی سیاسی جماعت پر گرا لیا۔

جرنیلوں کی حکومت

پاکستان کو اقتصادی ناکامی، بین الاقوامی تنہائی اور بڑھتے دہشت گرد حملوں کے تین رویا خطرات سے نمٹنے کے لئے فوری طور پر قومی مفاہمت کی ضرورت ہے۔ لیکن فریقین کے مابین فی الحال جنگ بندی کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ طاقت کے حصول کی گیم میں شامل ہر بڑے کردار سے کسی نہ کسی شکل میں غلطی ہوئی ہے۔ عمران خان نے اقتدار میں واپس آنے کے لئے فسادات برپا کرنے کی غلطی کی۔ دوسرے سیاست دانوں جنہیں عمران خان لٹیرے، نااہل اور غدار کہتے ہیں، ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے سے انکار کرنا عمران خان کو اپنے حامیوں کی نظر میں تو مقبول بنا سکتا ہے مگر یہ سراسر تشدد کا فارمولا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو انتشار پیدا ہوا اس نے فوجی مداخلت کی راہ ہموار کر دی تاکہ وہ آ کر امن و امان قائم کریں۔ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس نے پاکستان میں جمہوریت کے امکان پر کاری ضرب لگا دی ہے۔

عمران خان کے مخالفین پر مبنی سویلین حکومت کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے اگلے پارلیمانی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے سے انکار کر دیا۔ اگر حکومت انتخابات کے لئے کسی تاریخ کا اعلان کر دیتی تو عمران خان اپنی برطرفی کے خلاف مظاہرے کرنے کے بجائے انتخابی مہم چلانے پر مجبور ہو جاتے۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے سے حکومت کا ہچکچانا ان کی اس خواہش کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ انتخابات سے پہلے عمران خان کو نااہل ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ حکومت میں شامل روایتی سیاسی جماعتیں اگرچہ عمران خان کی پاپولسٹ سیاست کو ناگوار اور اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں انتخابات سے نہیں بھاگنا چاہیے تھا۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھی ابھی یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسے چیف جسٹس کی ذاتی ترجیحات کے بجائے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔ چیف جسٹس کی جانب سے ایسے ججوں کو بنچوں کا حصہ بنانے سے انکار کرنا جو سیاسی نوعیت کے اہم ترین مقدمات میں ان سے اختلاف کر سکتے ہیں ان کے جانب داری کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستانی فوج نے بھی ابھی تک یہ نہیں سیکھا کہ سیاست کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جائے، اس کے بجائے ہر چند سالوں کے بعد سامنے آ کر یا پس پردہ رہ کر فوج پھر سے سیاست میں دخل اندازی شروع کر دیتی ہے۔

موجودہ سیاسی ڈرامے کے اداکاروں میں سے کوئی بھی پاکستان اور اس کے 24 کروڑ عوام کی خاطر کوئی سمجھوتہ کرنے پہ تیار ہو جائے گا، بدقسمتی سے ابھی تک اس طرح کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اگر انتخابات عمران خان اور ان کی جماعت کے خلاف کامیاب کریک ڈاؤن کے بعد منعقد کروائے جاتے ہیں تو عمران خان کے پیروکار ان انتخابات کی ساکھ پر سوال اٹھاتے رہیں گے۔ مستقبل کی سول حکومت کو ایک ہی وقت میں ملک میں جمہوری آزادیوں کو قائم کرنے، امن و امان برقرار رکھنے اور معیشت کو ٹھیک کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عمران خان اگر تمام تر مشکلات کے باوجود غیر متوقع طور پر کسی طرح انتخابات جیت کر اقتدار میں واپس آنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ضروری نہیں کہ ان کی واپسی بھی ملک کے لئے نیگ شگون ثابت ہو۔ پاکستان ایک ایسے سویلین آمر کے ہاتھ میں آ جائے گا جو اپنے بہت سارے دشمنوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر تُلا بیٹھا ہوگا۔ ہر دو صورتوں میں ملک کی فوج کے پاس سیاسی طور پر فعال رہنے کی کئی وجوہات ہوں گی اور ایک مکمل طور پر جمہوری پاکستان جس کی حکمرانی سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہو نا کہ فوجیوں کے، کے قیام کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔




امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا یہ مضمون امریکی میگزین Foreign Affairs میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
مزیدخبریں