پی ڈی ایم اجلاس میں ہوا کیا؟
پی ڈی ایم کے اجلاس میں خطاب کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ میاں صاحب پلیز پاکستان تشریف لائیں۔ نواز شریف اگر جنگ کے لئے تیار ہیں تو لانگ مارچ ہو یا عدم اعتماد کا معاملہ، انہیں وطن واپس آنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ وطن آجائیں ہم استعفے انکو دے دیں گے۔ اسمبلیوں کو چھوڑنا عمران خان کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ ہم پہاڑوں پر سے نہیں بلکہ پارلیمان میں رہ کر لڑتے ہیں۔ دوسری جانب مریم نواز نے آصف علی زرداری کو انکی تنقید پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ انکے والد کی جان کو کطرہ ہے ایسے میں وہ کیسے ملک میں واپس آئیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آصف علی زرداری ان کے والد کی جان کے تحفظ کی گارنٹی دیں تو وہ واپس آجائیں گے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) کے اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ جمہوری قوتوں نے دھاندلی کا سامنا کیا ہے، میں نے اپنی زندگی کے 14 برس جیل میں گزارے ہیں۔
آپ پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں، میں نے پارلیمان کو اختیارات دیئے۔ ایسے فیصلے نہ کریں کہ جس سے راہیں جدا ہوجائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے انتشار کا فائدہ جمہوریت کے دشمنوں کو فائدہ دے گا، پاکستان پیپلزپارٹی ایک جمہوری پارٹی ہے، ہم پہاڑوں پر سے نہیں بلکہ پارلیمان میں رہ کر لڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب وطن واپس آجائیں گے تو ہم استعفے جمع کرادیں گے۔ جبکہ مریم نواز نے آصف علی زرداری کے ساتھ جوابی مکالمے میں کہا کہ نیب کی تحویل میں میاں صاحب کی زندگی کو خطرہ ہے۔
جیسے آپ ویڈیو لنک پر ہیں ویسے ہی میاں صاحب بھی ویڈیو لنک پر ہیں۔ مسلم لیگ ن نےسب سےبڑی جماعت ہونےکےباوجودپی ڈی ایم کاساتھ دیا۔ پیپلزپارٹی استعفوں کیخلاف تھی،مسلم لیگ ن نےاتفاق رائےکیلئےآپکی حمایت کی۔ میرے والد کو جیل میں دو ہارٹ اٹیک ہوئے ہیں آپ گارنٹی دیتے ہیں تو وہ واپس آجاتے ہیں۔
جو ہوا وہ کیوں ہوا؟
یہ سب تو ہوگیا۔ لیکن یہ سب کیوں ہوا؟؟ اس کا جواب خال خال ہی کسی میڈیا نمائندے نے دیا ہے۔ تاہم جس ایک صحافی نے اس حوالے سے کھل کر گفتگو کی ہے اس میں ملک کے معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر شامل ہیں۔ انہوں نے جیو ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ جو کچھ ہوا اس میں باخبر میڈیا حلقوں کے لیئے کوئی سرپرائز نہیں تھا۔ حامد میر کا کہنا تھا یہ صورتحال گزشتہ 24 گھنٹوں میں بنی ہے۔
معاملہ در اصل سینیٹ میں اپوزیشن لیڈری کا ہے۔ یاد رہے کہ سینیٹ میں چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین کے الیکشن کے وقت یہ طے پایا تھا کہ چئیرمین سینیٹ پیپلز پارٹی، ڈپٹی چئیرمین سینیٹ جے یو آئی ایف جبکہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ن لیگ کا ہوگا اور یوں حکومت کو اس کھیل سے باہر کیا جائے گا۔ اسی حساب سے دونوں نشستوں پر پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی جبکہ مولانا غفور حیدری کو نامزد کیا گیا۔ تاہم شو مئی قسمت کہ عین موقع پر چئیرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی سیٹیں حکومت اسٹیبلشمنٹ اتحاد لے اڑا۔
حامدمیر کے مطابق ان دونوں نشستوں پرانتخاب کے بعد آصف زرداری نے نواز شریف کو فون کر رکے کہ اس بات کا شکریہ ادا کیا کہ ان کے سینیٹرز نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔ جبکہ انہوں نے کہا کہ جو سات ووٹ ضائع ہوئے وہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر کی جانب سے ہوئے۔ اب جبکہ صرف اپوزیشن لیڈر کی سیٹ بچی ہے تو اس پر ن لیگ واضح تھی کہ اس سیٹ پر انکی جانب سے نامزدگی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جائے گی۔ تاہم اس سے قبل ہی یہ معاملات پہلے نجی طور پر زیر بحث لائے گئے اور پھر آج کا دھماکہ خیز اجلاس ہوا جس میں دھماکہ خیز طور پر آصف علی زرداری کا خطاب سامنے آیا۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کردار
مولانا فضل الرحمٰن پی ڈی ایم کے سربراہ بھی ہیں اور اتحاد میں شامل تیسری بڑی جماعت کے رہنما بھی۔ معروف صحافی نجم سیٹھی نے گزشتہ شب نیا دور کے پروگرام خبر سے آگے میں اس وقت ملکی سیاست کے کرداروں کے کردار اور مستقبل کی سیاست کے حوالے سے گفتگو کی تھی جسں میں انکا کہنا تھا کہ نواز شریف اسٹیبشلمنٹ کو دھمکائیں گے، عمران خان اسٹیبشلمنٹ کو بلیک میل کریں گے، آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے جبکہ فضل الرحمٰن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بندے اکھٹے کریں گے۔ تاہم لگ یہ رہا ہے کہ مولانا کو صرف بندے اکھٹے کرنے کا ٹاسک ہی نہیں بلکہ اب رہنماؤں کو بھی اکھٹے کرنے کا کار مشکل درپیش ہے۔
حامد میر کے مطابق مولانا کی کوشش ہوگی کہ وہ اس بحران کو کسی با عزت حل کی طرف لے جائیں۔
پی ڈی ایم کے پاس اب راستہ کیا ہے؟
پی ڈی ایم کے پاس اب تین راستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ پیپلز پارٹی کا اسمبلیوں سے استعفوں پر موقف بات مان لے۔ اور کوئی پارٹی بھی اسمبلیوں سے استعفی ٰ نہ دے۔ ایسے میں یہ تو واضح ہے کہ عمران حکومت کے لیئے کوئی بھی آئینی چیلنج نہیں پیدا ہوگا۔ چونکہ ملک میں انقلاب آفرین ماحول تا حال پیدا نہیں ہوا۔ عمران حکومت کو گھر بھیجنے کے لیئے بہر حال آئینی بحران ہی درکار ہے جس کی تاثیر میں اضافے کے لیئے دھرنے کا مصالحہ درکار ہے۔ استعفے نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ عمران حکومت اپنے آخر کی طرف گامزن رہے گی اور وزیر اعظم عمران خان ہی رہیں گے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں ن لیگ اور جے یو آئی ایف اور پارلیمانی سیاست اسکے حوالے کر دے۔ یہ فیصلہ ن لیگ کے لیے اتناہی جاں گسل ہوگا جتنا کہ پیپلز پارٹی کے لیئے استعفے دینا۔ کیونکہ ایسے میں پیپلز پارٹی کو عددی حیثیت کے برعکس وہ سسٹم میں بھاری ہوگی۔ تیسرا یہ کہ پی ڈی ایم پیپلز پارٹی سے راہیں جدا کر لے۔ ایسے میں شاید عمران خان گھر نہ بھیجے جا سکیں تاہم اگلے الیکشنوں میں سڑکیں گرم کرنے والی پارٹیوں کے حکومت میں آنے کے امکانات بڑھ جائیں۔