یہ سال 2014 کے دنوں کی باتیں ہیں ہم بھی پشاور یونیورسٹی میں طالب علم تھے اور طلباء سیاست کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے مشاعروں اور ادبی پروگراموں میں شرکت کرتے رہتے تھے۔ طالب علمی میں ہی بائیں بازو کے خیالات سے متاثر ہوئے تو دوستیاں بھی بائیں بازو اور قوم پرست سیاست سے وابستہ سیاسی کارکنوں سے رہیں اور یونیورسٹی میں بحث مباحثہ بھی اُن دوستوں سے جاری رہتا تھا اور کبھی کبھی اسلامی جمیعت طلباء کے دوست بھی شرکت کرتے رہتے تھے۔
پشاور یونیورسٹی کے پشتو ڈیپارٹمنٹ کے وسط میں کتابوں کی ایک دکان واقع تھی جہاں سے یونیورسٹی کے دنوں میں کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ یہ کتابوں کی دکان ساٹھ سالہ شخص انور خان لالا کی تھی جو خاندانی طور پر بہت آسودہ تھے اور ان کے بیٹے اچھی جگہوں پر نوکریاں کرتے تھے مگر ان کو اپنی کتابوں کی دکان سے عشق تھا اور صبح صبح ہی دکان کھول لیتے تھے۔ جب بھی ہم انور خان لالا کی دکان پر حاضری دیتے تھے تو ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی ہمیشہ لالا کی دکان پر کتابوں میں مگن رہتے تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں معلوم ہوا کہ لڑکی کا نام نائلہ شمال صافی جبکہ اس نوجوان کا نام سجاد ژوندون ہے ۔ وقت کے ساتھ دونوں سے شناسائی ہوگئی اور پھر تقریباً ہر محفل میں ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ سجاد ژوندون اور نائلہ شمائل دونوں شاعر تھے اور دونوں مشاعروں میں شرکت کرتے رہتے تھے اور اپنی شاعری مشاعروں میں پیش کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ نائلہ شمال اور سجاد ژوندون سے ایسی دوستوں قائم ہوئی جو تاحیات قائم ہے۔
دونوں ترقی پسند خیالات کے حامی ہے۔ نائلہ شمال کا تعلق قوم پرست سیاست کے گڑھ چارسدہ سے ہے جبکہ سجاد ژوندون کا تعلق مردان سے ہے۔
یہ نوجوان جوڑا پشتو ادب میں ماسٹرز کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کررہا ہے۔ نائلہ شمال ، سجاد ژوندون سے ایک کلاس جونئیر تھی اور اج کل ایم فل کی طالب علم ہے جبکہ سجاد ژوندون پی ایچ ڈی کرچکے ہیں اور دونوں تدریس سے وابستہ ہیں۔ سجاد ژوندون کی شاعری کا ایک مجموعہ شائع ہوچکا ہے جبکہ ایک نثری کتاب بھی شائع ہوچکی ہے جبکہ نائلہ شمال نے مقابلے کے امتحان (سی ایس ایس) کی تیاری کے لئے پشتو کی ایک کتاب بھی لکھی ہے جبکہ انکی مشہور تصنیف فراق گورکھپوری کے مقالوں کا پشتو ترجمہ ہے۔ دونوں نوجوان پشتو ادب میں گولڈ مڈل حاصل کرچکے ہیں اور آج کل تدریس سے وابستہ ہے۔
پشاور یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم اور مشہور پشتو گلوگار شوکت سواتی جو سجاد ژوندون اور نائلہ شمال کے دوست ہیں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ نائلہ شمال ایک محقق ذہن کی مالک ہیں۔ ہم ماسٹرز میں کلاس فیلوز تھے جبکہ سجاد ژوندون ہم سے ایک کلاس سینئر تھے ۔ دونوں نے پشتو ادب میں گولڈ میڈل حاصل کیا ہے اور مختلف محفلوں میں ساتھ بیٹھنے کی وجہ سے ان میں دوستی قائم ہوئی جو اب زندگی بھر کے ساتھ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ نائلہ شمال اور ان کے خاوند سجاد ژوندون کو کتابوں اور تحقیق سے لگاؤ تھا اس لئے ان کا ذہنی ملاپ جلدی ہوگیا اور دونوں نے کئی سال بعد شادی کی ۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ہمارے سماج میں جہیز اور مہنگی اشیاء کا جو تاثر لڑکا لڑکی کے ساتھ جوڑ دیاجاتا تھا آج دونوں نے مل کر اس سوچ اور تاثر کو توڑ دیا اور ثابت کیا کہ خوشی اور سکون صرف جہیز اور مہنگی اشیاء میں نہیں بلکہ کوئی لڑکی حق مہر میں سونے اور رقم کی بجائے کتابیں بھی مانگ سکتی ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ نائلہ شمال اور سجاد ژوندن کے اس سوچ سے مزید لوگ متاثر ہونگے اور سماج میں تبدیلی آئے گی۔