ڈاکٹر مبشر حسن: افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

ڈاکٹر مبشر حسن: افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔ مارچ کا مہینہ تھا اور میں اپنی بیوی اور بیٹے کو لاہور کے ہوائی اڈے پر برطانیہ جانے والی پرواز میں سوار کروانے کے بعد واپس پریس کلب جا رہا تھا۔ بردرام عدنان عادل کی فون کال موصول ہوئی۔ انہوں نے ڈاکٹر مبشر حسن کے انتقال کی خبر سنائی۔

ان کی دوسری برسی بھی آگئی ہے۔ میں برطانیہ میں مقیم ہوں، مگر دل میں ابھی ڈاکٹر مبشر حسن کی بے شمار یادیں ہیں۔ میں نے کبھی ان کو بطور سیاست دان نہیں دیکھا۔ ہمیشہ ان کو ایک سماجی سائنس دان کے طور پر یاد کیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ پانی پت کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے لاہور آگیا تھا۔ پچھلے 73 سالوں سے لاہور میں ہی مقیم رہے، مگر اس کے باوجود پانی پت ان کے اندر باہر نہیں نکل سکا بلکہ ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔

لاہور سے انہوں نے ایک الیکشن بھی لڑا۔ انہوں نے اس میں دائیں اور بائیں بازو کے بڑے ناموں کو بڑے مارجن سے ہرایا۔ ان کے مدمقابل پنجابی میں بات چیت کرنے والے خالص لاہوری تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ اردو میں بات چیت کی۔ کبھی اپنے اوپر لاہوری رنگ نہیں چڑھنے دیا۔ ہمیشہ اپنے لب ولہجہ پر قائم رہے۔ پانی پت کی تہذیب وتمدن کو اپنی طاقت بنائے رکھا۔ ٹھیٹھ پنجابی بولنے والے بھی ان سے اُردو میں بات کرتے۔ ایک انتظار حسین اور دوسرے ڈاکٹر مبشر حسن دونوں نے کبھی اپنی زبان خراب نہیں کی۔

ڈاکٹر صاحب سے میرا تعلق دو نسلوں کا ہے۔ میرے والدین 1970 کے الیکشن میں ان کے پولنگ ایجنٹ بنے تھے۔ بعد میں جب وہ وزیر خزانہ بنے تو میرے والد کو نیشنل بینک میں نوکری بھی دی۔ میں نے ڈاکٹر مبشر حسن کے دو مختلف ادوار میں بطور محقق کام کیا۔ ان کی چند کتابوں کے لئے کچھ ریسرچ کرکے دی تھی۔ کوئی تین سال یہ کام کیا۔ اس کے بعد ایک سال تک ان کی وفات سے دو ماہ قبل تک ان کا فیس بک اکاؤنٹ چلاتا تھا۔

ہر شام ان سے ملاقات ہوتی جہاں خالد محبوب، عدنان عادل اور ان کے بھانجے علی رضا بھی ہوتے۔ ڈاکٹر صاحب کو دن بھر کی خبریں سناتا۔ وہ ملکی سیاسی صورتحال پر ایک چھوٹا سا پیراگراف لکھواتے جو ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر ڈال دیا کرتا تھا۔ وہ شامیں آج بھی یاد آتی ہیں۔ چائے، سموسے نمک پارے، جلیبیاں اور علم وادب حکمت کی باتیں۔

ڈاکٹر صاحب، وزیراعظم عمران خان کے لئے بہت نیک خواہشات رکھتے تھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے بہت بڑے ناقد تھے مگر ایک بات ہمیشہ کہتے تھے کہ یہ بوسیدہ نظام اور بدعنوان اشرافیہ عمران خان کو ناکام کر دے گی کیونکہ وہ دلیر اور ایماندار شخص ہے۔ یہ کرپٹ نظام اور بدعنوان اشرافیہ کبھی اس کو قبول نہیں کرے گی ان کو وہ وزیراعظم چاہیے جو امریکہ کی خوشنودی حاصل کرے، خود بھی پیسہ کمائے اور ہمیں بھی کھانے دے۔

ڈاکٹر مبشر حسن کہتے تھے کہ بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور شریف برادران نے سماج کے لئے کرپشن کو قابل قبول عمل بنا دیا ہے، اب لوگوں کو کرپشن میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ نوکر شاہی، عدلیہ، اخبار نویسوں اور سیاست کاروں سب کو کھانے کی عادت پڑ گئی ہے۔

میں نے ان کو بتایا کہ میرے ایک دوست نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حمزہ شہباز کے مقابلے پر الیکشن لڑا اس کے پانچ کروڑ روپے لگے، حمزہ شہباز نے دس کروڑ لگائے، وہ بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے میں نے اپنے الیکشن پر 20 ہزار روپے خرچ کئے تھے۔

ڈاکٹر صاحب صاحب طرز ادیب بھی تھے ان کی کتابوں کی تعداد 27 ہے۔ شاہراہِ انقلاب جلد اول ودوم، رزم زندگی، غالب کی شاعری کی تشریح اور میر تقی میر کے شعروں کا انتخاب ان کی یادگار کتب ہیں۔

غلط اُردو بولنے اور لکھنے پر ڈانٹ کر اصلاح کرنا، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور گفتگو کرنے کے آداب سب کچھ ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ صرف ڈاکٹر مبشر حسن کے ساتھ نوکری ہی نہیں کی بلکہ زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی سیکھا۔ پاکستان کے بوسیدہ نظام حکومت اور طاقت کے اصل مراکز کو جس طرح وہ سمجھتے تھے کوئی نہیں سمجھ پایا۔ حرف آخر پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔