اداروں کیخلاف مہم چلانے کا کیس: اسد طور کی ضمانت منظور، عدالت کا رہا کرنے کا حکم

خصوصی عدالت نے صحافی اسد طور کی اداروں کے خلاف مہم چلانے کے کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیدیا جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی کو جاری ایف آئی اے نوٹسز کو خلاف قانون قرار دے دیا۔

02:29 PM, 16 Mar, 2024

نیا دور

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے صحافی اسد طور کی اداروں کے خلاف مہم چلانے کے کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرلی ہے۔ عدالت نے 5 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض اسد طور کو رہا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔

سپیشل جج سینٹرل اسلام آباد ہمایوں دلاور نے اداروں کے خلاف مہم چلانے کے کیس میں صحافی اسد طور کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کی۔ اسد طور کے وکلا ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ جبکہ کیس کے تفتیشی افسر ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہوئے۔وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سپیشل پراسیکیوٹر سید اشتیاق حسین شاہ بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

وکیل ہادی علی چٹھہ نے سپریم کورٹ کی آبزرویشن عدالت میں جمع کروائی جس پر عدالت نے تفتیشی افسر اور سپیشل پراسیکیوٹر ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ کیا یہ آبزرویشن درست ہے؟

ایف آئی اے سپیشل پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی یہ آبزرویشن درست ہے۔ ایف آئی اے نے ضمانت پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ عدالت نے اسد طور کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرتے ہوئے انہیں 5 ہزار روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نوٹسز کے خلاف صحافی اسد طور کی درخواست پر تحریریں فیصلہ جاری کردیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے 7 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں عدالت نے بادی النظر میں اسد طور کو جاری نوٹسز خلاف قانون قرار دے دیے۔

تحریری فیصلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ نوٹسز خلافِ قانون جاری ہوئے۔ پھر ایف آئی آر درج ہوئی۔ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد متعلقہ فورم سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ از خود نوٹس کا اختیار نہیں اس لیے اسد طور کو رہا کرنے کا حکم نہیں دے سکتے۔ صرف نوٹسز کو چیلنج کیا گیا تھا اس لیے درخواست کو آبزرویشنز کے ساتھ نمٹا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ اسد طور نے ایف آئی کی جانب سے 23 فروری اور 26 فروری کو جاری نوٹسز گرفتاری سے قبل چیلنج کیے تھے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل کے بعد 7 مارچ کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

مزیدخبریں