کیا افغانستان میں امن کی کوششیں دم توڑ رہی ہیں؟

12:19 AM, 16 May, 2020

رفعت اللہ اورکزئی
افغانستان میں حالیہ تشدد کی لہر میں اضافے اور فریقین کی طرف سے پھر سے جنگ کے اعلانات نے ایک مرتبہ پھر شورش زدہ ملک میں امن کی کوششوں کو پس پشت ڈال دیا ہے اور اب بظاہر لگ رہا ہے کہ حالات پھر بھرپور لڑائی کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

کابل اور جلال آباد میں جنازے اور اسپتال پر ہونے والے حالیہ بیہمانہ حملوں میں نوازئیدہ بچوں اور خواتین کی ہلاکت کی دنیا بھر میں شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔ افغانستان کی گذشتہ چالیس سالہ تاریخ تشدد کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ تاہم، کابل کے زچہ بچہ اسپتال میں دہشت گردوں نے نوازئیدہ بچوں اور ان کی ماؤں کو جس بے دردی سے گولیوں سے بھون ڈالا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

دوسری طرف افغان صدر کی طرف سے ان واقعات پر ردعمل میں جس جلد بازی کا مظاہرہ کیا، اس پر طرح طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے ان دھماکوں کے چند ہی گھنٹوں بعد قوم سے خطاب کیا جس میں ان کی طرف سے ملک کی سکیورٹی فورسز کو طالبان اور دولت اسلامیہ خراسان کے خلاف دوبارہ سے حملے کرنے کا حکم دیا گیا۔ اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ افغان صدر نے جلدی بازی سے کام لیا اور بغیر تحقیق کے طالبان کو ان واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا جب کہ حملوں کی ذمہ داری بھی داعش کی طرف سے قبول کی گئی۔

افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور مصنف عقیل یوسفزئی کا کہنا ہے کہ چاروں حملے داعش کی طرف سے کیے گئے لیکن افغان صدر کی طرف سے الزام طالبان پر لگایا گیا جس سے افغان حکومت کی غیر ذمہ داری اور نااہلی بھی ثابت ہوتی ہے۔



یہ بھی پڑھیے: افغانستان میں گھمسان کا رن پڑنے والا ہے







انہوں نے کہا کہ اگر دوحہ امن معاہدے کو بین الاافغان مکالمے میں تبدیل نہیں کیا گیا تو پھر سے افغانستان میں نوے کی دہائی میں ہونے والی خانہ جنگی کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔

عقیل یوسفزئی کے بقول ’ایک تو یہ کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان جاری کشیدگی اور ممکنہ قومی حکومت کا فارمولا بہت سے مسائل کی بنیادی وجہ بن گئی ہے اور دوسرا یہ کہ افغان فورسز میں سے 25 افسران اور اہلکار ایسے ہیں جو کہ طالبان کے حامی ہیں اور ان کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ داعش کے خاتمے یا کمزور ہونے کا تاثر بھی درست نہیں تھا کیونکہ کابل سمیت بعض دیگر شہروں میں داعش کے خوفناک حملوں اور بدترین ہلاکتوں نے بعض نئے خدشات اور سوالات پیدا کیے ہیں اور بدترین انتشار کے خدشات سامنے آ رہے ہیں۔

اگرچہ دوحہ امن معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں تشدد کے واقعات تسلسل سے جاری تھے لیکن اس دوران طالبان اور افغان حکومت کی طرف سے قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ بھی جاری تھا جس سے بہرحال ایک امید کی کرن موجود تھی۔ لیکن گذشتہ روز افغان حکومت کی طرف اعلان جنگ کے فیصلے کے بعد اب بظاہر لگ رہا ہے کہ امن کی کوششیں دم توڑ رہی ہیں۔



یہ بھی پڑھیے: صدر اشرف غنی کا ’دشمن پر حملہ‘ کرنے کا حکم: کیا پھر بھرپور جنگ؟







ادھر امریکہ نے گذشتہ روز ہونے والے حملوں کا الزام داعش پر عائد کرتے ہوئے ایک لحاظ سے طالبان کا دفاع کیا ہے۔ امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کے تجزیے کے مطابق کابل اور ننگرہار میں ہونے والے حملوں میں داعش ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ داعش نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کی بھی مخالفت کی ہے لہٰذا افغان عوام کو ان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے بلکہ امن کے عمل میں حکومت اور طالبان کا ساتھ دیں۔

طالبان نے کابل اور جلال آباد میں ہونے والے دونوں حملوں کی نہ صرف سخت الفاظ میں مذمت کی ہے بلکہ اس کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ذرائع ابلاغ کو جاری ایک مفصل بیان میں وضاحت کی ہے کہ کابل میں جس اسپتال کو نشانہ بنایا گیا وہ امارت اسلامی کے مطالبے پر قائم کیا گیا اور ایسے میں وہ کیسے ایک ایسے صحت مرکز کو نشانہ بنا سکتے ہیں جو ان کے کہنے پر بنایا گیا اور جہاں فوجی اہداف بھی نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی یہ پالیسی نہیں ہے کہ جنازوں میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنائیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے الزام لگایا کہ ان حملوں کی سازش میں افغان حکومت کا ہاتھ ہے۔

اس سے قبل طالبان کی طرف سے جمعرات کو گردیز کے علاقے میں وزرات دفاع کے ایک دفتر پر کار بم حملہ بھی کیا گیا جس میں پانچ اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد طالبان کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں نہ صرف حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ یہ حملہ افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے جنگ کے اعلان کے ردعمل میں کیا گیا ہے تاکہ ان کو حقیقت بتائی جا سکے۔
مزیدخبریں