وہ لکھتے ہیں کہ ایک طاقتور ادارے کے عملیت پسند اور خیر خواہ سربراہ نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ ترین کے خلاف چینی اسکینڈل کو حد سے زیادہ بڑھایا گیا تو سیاست میں نقصان ہوگا، اسی طرح کا پیغام جہانگیر ترین کو بھی دیا گیا۔ یوں دونوں طرف اس مشورے کے فیض سے وقتی طور پر خاموشی چھا گئی ہے۔ مگر اس معاملے کی سنگینی کے پیش نظر اسے زیادہ دیر تک قالین کے نیچے چھپانا مشکل ہوگا، ہرسیاسی معاملے کے کچھ نہ کچھ نتائج وعواقب ضرور ہوتے ہیں۔
سہیل وڑائچ لکھتے پیں کہ وزیراعظم نے چینی اسکینڈل میں اپنے ہی سیاسی ساتھی جہانگیر ترین کے خلاف تحقیقات کیں تو انہیں اس کا فوری سیاسی فائدہ ہوا، سیاسی گراف اوپر گیا، اب اگر اس اسکینڈل پر مٹی ڈال دی جاتی ہے تو پھر وزیراعظم کے لئے آنے والے دنوں میں یہ ایک سیاسی مسئلہ بن جائے گا اور ہر جگہ سوال ہوگا کہ اپنوں کی باری آئی تو مصلحت آڑے آگئی جبکہ سیاسی مخالفوں کو رگڑا لگاتے ہوئے کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔
اس معاملے کے پس منظر میں اہم یہ ہے کہ جنوری اور فروری کے دوران ملک بھر میں گندم کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو تک جا پہنچی۔ جس کے بعد اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بحران پر قابو پانے کے لیے 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی۔ وزیراعظم عمران خان نے گندم کی قلت اور آٹے کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے گندم ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اسی دوران ہی آٹے کے ساتھ ملک میں چینی کا بحران بھی سر اٹھانے لگا، جس کے باعث وفاقی حکومت نے چینی کی برآمد پر فوری طور پر پابندی لگانے اور چینی کی درآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے چینی درآمد کرنے کی سمری (تجویز) مسترد کرتے ہوئے چینی برآمد کرنے پر بھی پابندی لگا دیْ۔
ان دونوں بحرانوں کے حوالے سے اس وقت بڑے بڑے دعوے میڈیا کی زینت بنے جس میں یوں سماں باندھا جاتا رہا جیسے اس بار ریاست مدینہ برینڈڈ انصاف ہو کر ہی رہے گا۔
طویل خاموشی کو اچانک توڑتے ہوئے آٹا چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ جو کہ 4 اپریل کو اچانک میڈیا چینلز پر نمودار ہوئی، اس کے مطابق چینی بحران میں سیاسی خاندانوں نے خوب مال بنایا تھا اور جہانگیر ترین اور خسروبختیار کے بھائی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔
اگلے روز ہی وزیر اعظم کے معاون خصوصی ندیم افضل چن نے اس رپورٹ بارے میں انکشاف کیا کہ یہ رپورٹ جاری نہیں ہوئی بلکہ لیک ہوئی ہے۔ جس کے بعد تاثر ابھرا کہ اندرون خانہ شدید سیاسی کشمکش جاری ہے جس میں مقتدر حلقے بھی اپنی صفیں سیدھے کئے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی وزیر اعظم کی جانب سے قوم کو یہ کہا گیا کہ حتمی ایکشن کے لئے 25 اپریل تک فرانزک رپورٹ کے آنے کا انتظار کریں۔
دوسری جانب رپورٹ کا نشانہ بننے والے تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین نے بھی اپنے سیاسی پتے کھیلے اور اس رپورٹ کو ایک سیاسی رپورٹ قرار دیتے ہوئےر شوگر بحران سے متعلق اس رپورٹ کے پس پردہ کھیل کھیلنے سے متعلق کھل کر وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کا نام لیا۔
جہانگیر ترین نے موجودہ اسمبلی اور تحریک انصاف کی حکومت کی مصنوعی سیاسی بنت پر بھی بات کی اور اسے اپنی مرہون منت قرار دیا اور یوں یہ واضح ہوگیا کہ جہانگیر ترین اب دوبدو لڑائی پر تل چکے ہیں۔ جس کے بعد جوں جوں 25 اپریل قریب آتی گئی چینی بحران رپورٹ پر تحریک انصاف کے وزار کے بیانات میں بھی ٹھنڈک کا احساس بڑھتا گیا۔ حتیٰ کہ پیش گوئیوں کا کریڈٹ خود لینے والے پاکستانی سیاست کے مبینہ بابا وانگا شیخ رشید نے ایک بیان میں اشارہ دے دیا کہ شاید فرانزک رپورٹ 25 اپریل کو نہ آسکے۔ پھر وہی ہوا، چینی سکینڈل کا اب کوئی نام لیوا نہیں ہے۔ اسی تناظر میں سہیل وڑائچ کا یہ انکشاف کہ خاموشی کسی طاقتور ادارے کے سربراہ کا فیض ہے، تحریک اںصاف کی کرپشن مہم کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے۔