طاقتور ترین ادارے کے عملیت پسند اور خیر خواہ سربراہ نے ذرائع کے مطابق وزیراعظم سے ملاقات سے پہلے چوہدری شجاعت حسین اور جہانگیر ترین سے بھی ملاقات کی تھی۔ چوہدری شجاعت حسین سے وہ خود جا کر ملے جبکہ جہانگیر ترین کو طاقتور غیر سیاسی شخصیت نے گھر بلا کر ملاقات سے فیض یاب کیا، جس کے بعد ہی وزیراعظم کو سمجھانے کے لئے ان سے ملاقات کی۔ اسی لئے جب نیب نے چوہدریوں کو حالیہ نوٹس بھیجے تو چوہدری برادران سکتے میں رہ گئے۔
نیب کا یہ اقدام چوہدریوں کے لئے اس قدر shocking تھا کہ وہ سٹپٹا کے رہ گئے اور یہ باور کر لینے پر مجبور ہوگئے کہ ان کے ساتھ چھیڑ خانی چیئرمین نیب کے تعاون سے بنی گالہ کی طرف سے کی گئی ہے۔ یوں نیب نوٹسز کے محض ایک اقدام نے بیک فائر کا کام کیا اور جو حرکت پرائم منسٹر ہاؤس مخالف سیاسی قوتوں کے ساتھ رابطوں اور مبینہ جوڑ توڑ کی کوششوں کی بنیاد پر چوہدریوں کو ڈرانے کے لئے کی گئی تھی اس نے الٹ اثرات و نتائج مرتب کرتے ہوئے اختلافات کی چنگاری کو شعلہ بنا دینے میں دیر نہ لگائی۔
37313/
اوپر سے جہانگیر ترین کے بدترین مخالف وفاقی وزیر اسد عمر نے ذرائع کے مطابق انکوائری کمیشن میں ٹھوک کے جہانگیر ترین کے خلاف بیان دے دیا، جس کے نتیجے میں کمیشن کی متوقع سخت رپورٹ سے صرف نظر کرنا یا اسے سرد خانے میں ڈالنا آسان نہیں ہوگا جبکہ رپورٹ میں ترین اور مونس الہٰی کی شوگر ملوں کے خلاف سفارشات آجانے کی صورت میں ترین چوہدری نیٹ ورک کی طرف سے پوری شدت کے ساتھ سخت سیاسی جواب کا امکان ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ خود حکمران پی ٹی آئی میں متحارب سیاسی دھڑوں اور متوازی لابیوں کی سیاسی اوقات اور آئندہ سیاست کا دارومدار اب چینی سکینڈل انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر ہے، برسر اقتدار جماعت میں اسد عمر کی سربراہی میں اس وقت غلبہ رکھنے والے کراچی گروپ کی بالادستی کی بقا کا انحصار بھی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لائے جانے، تحقیقاتی کمیشن کی متوقع دھانسو سفارشات اور ان پر فوری عملدرآمد پر ہی ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے ہو سکتا ہے ملک میں حکمران جماعت میں بڑھتے ہوئے ٹوٹ پھوٹ کےعمل اور برسر اقتدار اتحاد میں دراڑیں بھرنے کی اسٹیبلشمنٹ کی کوشش کو خود بنی گالہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنی چال چل کے ناکام بنایا ہو۔